جرمنی نے شام میں فوجی بھیجنے کا امریکی مطالبہ مسترد کر دیا

امریکا نے جرمنی سے شام میں فوجی دستے بھیجنے کا مطالبہ گزشتہ ہفتے کیا تھا۔ جرمنی نے امریکی مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اس ضمن میں جرمنی کی خدمات پہلے ہی ’کافی‘ ہیں۔

جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفان زائبرٹ نے کہا ہے کہ جرمنی شام میں اپنی عسکری موجودگی نہیں بڑھائے گا۔
جمعہ پانچ جون کو امریکا کے شام کے لیے خصوصی مندوب جیمز جیفری نے جرمنی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شام میں کرد ملیشیا کی زیر قیادت اپوزیشن کے اتحاد سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کو دہشت گرد تنظیم داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت فراہم کرے۔ امریکا نے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ جرمن شامی اپوزیشن اتحاد کی تربیت اور معاونت کے لیے اپنے عسکری ماہرین کے علاوہ بری فوج کے دستے بھی شام بھیجے۔
زائبرٹ نے پیر آٹھ جولائی کے روز اس حوالے سے کہا، ''جب میں کہتا ہوں کہ جرمنی موجودہ داعش مخالف اتحاد کے فریم ورک میں رہتے ہوئے تعاون جاری رکھے گا تو اس سے مراد ہے کہ وہاں جرمنی کے کوئی بری فوجی نہیں ہوں گے۔‘‘
'کافی عسکری خدمات‘
شام اور عراق میں داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں اسی سے زائد ممالک شامل ہیں اور اس مقصد کے لیے فی الوقت جرمن عسکری ماہرین اور غیر لڑاکا طیارے عراق میں تعینات ہیں۔
جرمن وفاقی حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جرمنی 'کئی برسوں سے اہم اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ خدمات سرانجام دے رہا ہے‘۔
جون میں عراق کے دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے عندیہ دیا تھا کہ جرمن فوجی مشن کی تعیناتی کی مدت رواں برس اکتوبر میں ختم ہو رہی ہے لیکن وقت آنے پر اس تاریخ میں توسیع کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ امر بھی اہم ہے کہ تاریخ میں توسیع کے فیصلے کے لیے برلن حکومت کو وفاقی جرمن پارلیمان سے منظوری حاصل کرنا ہو گی۔

Comments