'عورتوں کو ہی سزا دی جاتی ہے‘

انڈونیشیا کی پارلیمنٹ نے جمعرات کے روز اسکول کے پرنسپل کی غیر اخلاقی فون کالز ریکارڈ کرنے والی خاتون کو معاف کرنے کی منظوری دے دی۔ اس خاتون کو قید کی سزا دی گئی تھی۔
جب پارلیمان میں نوجوان خاتون کو معاف کرنے کی منظوری دی گئی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس وقت بائق نوریل مکنن نامی نوجوان خاتون کی والدہ بھی پارلیمان میں موجود تھیں۔ انہوں نے اپنے چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور سجدہ کرکے شکر ادا کیا۔ مکنن  انڈونیشیا کے ایک جزیرے لومبوک کے ایک اسکول میں کام کرتی تھی۔ اس نے اپنے اسکول کے پرنسپل کی غیر اخلاقی فون کالز ریکارڈ کر لی تھیں۔ اس نے یہ ٹیلی فون ریکارڈنگز ایک تیسرے شخص کو دے دیں جس نے اسے کئی لوگوں کو بھیج دیا۔ یہ معاملہ منظر عام پر آنے کی وجہ سے اسکول پرنسپل کو اپنی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ 2015ء میں اس اسکول پرنسپل نے مکنن کے خلاف پولیس کو شکایت درج کرا دی اور مکنن کو فحش مواد کی ترسیل کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔
اس کیس کو مقامی عدالت نے خارج کر دیا تھا لیکن مقدمہ سپریم کورٹ تک لے جایا گیا جہاں سپریم کورٹ نے مکنن کو چھ ماہ کی قید اور پانچ سو ملین انڈونیشن روپے (36 ہزار ڈالر) جرمانے کا حکم سنایا۔ انڈونیشیا کے نیشنل کمیشن برائے خواتین کا کہنا ہے کہ مکنن کو معاف کر دیا جانا ایک اچھا فیصلہ  ہے لیکن اس سے ملک میں جنسی ہراسگی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران انڈونیشیا میں کئی ہائی پروفائل کیسز سامنے آئے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ آواز اٹھانے والے افراد کو ہی نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔
انڈونیشیا دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والا ملک ہے۔ اس ملک میں خواتین بہت کم جنسی ہراس کے بارے میں کھل کر بات کر پاتی ہیں۔ ریپ کا شکار ہونے والی ایک مصورہ کارتیکا جھاجا کا کہنا ہے،'' ہم جنسی ہراس پر بات کر کے اپنے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔ چاہے جنسی تشدد ہو یا جنسی حوالے سے گفتگو کرنا، یہاں کی روایات کے مطابق عورتوں کو ہی سزا دی جاتی ہے۔‘‘
معاف کر دیے جانے کے فیصلے سے قبل مکنن نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ اگر اسے آزاد کر دیا گیا تو وہ عمرہ ادا کرنے سعودی عرب جانا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا چاہے گی۔

Comments