برطانوی شاہی جوڑے کا دورہ پاکستان: ’قصہ خوانی واقعے پر برطانیہ کو معافی مانگنی چاہیے‘


شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کے بڑے بیٹے شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ ڈچز آف کیمبرج کیٹ مڈلٹن آج سے پاکستان کے دورے کا آغاز کر رہے ہیں۔ یہ دورہ پاکستان اور برطانیہ کے لیے کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان میں شاہی جوڑے کے والہانہ استقبال کی تیاریاں عروج پر ہیں اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی ملک کے مختلف علاقوں میں برطانوی دور حکومت میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے الزامات بھی موضوع گفتگو ہیں۔
ان میں سے ایک واقعہ 1930 میں پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار میں پیش آیا تھا۔
برطانوی سامراج کے خلاف تحریکِ آزادی کے ایک بڑے راہنما اور پختونوں میں سماجی اور سیاسی شعور کی بیداری کے لیے چلائی جانے والی خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کو انگریز حکومت کے خلاف تقریر کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے عدم تشدد کا پرچار کرنے والے غفار خان کو ان کے پیروکار باچا خان کے لقب سے یاد کرتے تھے، جبکہ متحدہ ہندوستان میں وہ سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔
غفار خان کی گرفتاری کے خلاف ان کے حامیوں نے صوبہ سرحد (صوبہ خیبر پختون خوا) کے مختلف مقامات پر احتجاج شروع کر دیا۔ 23 اپریل 1930 کو جب ان کے حامی قصہ خوانی بازار میں جمع ہوئے تو انگریز فوج نے پرامن کارکنوں پر اندھا دھند گولیاں چلائیں جس سے مبینہ طور پر سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
مورخین اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قصوں اور کہانیوں کے لیے مشہور اس بازار میں بڑی خونریزی ہوئی تھی۔
یوں ایک اور خونی کہانی بھی اس بازار کے در و دیوار نے محفوظ کرلی۔
اس موقع پر ہلاک ہونے والوں کے ورثا کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ تاج برطانیہ اس واقعے پر اُن سے معافی مانگے۔

لواحقین کا مطالبہ


اس بازار کے ایک دکاندار اقبال حسین کے دادا بھی قصہ خوانی واقعے میں زخمی ہوگئے تھے اور اس کے بعد انھیں رنگون کی جیل میں قید کر دیا گیا۔ بی بی سی کے سکندر کرمانی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ وہ اور متاثرین کے دیگر خاندان چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت قصہ خوانی واقعے پر ان سے معافی مانگے۔
اقبال حسین کہتے ہیں کہ ’یہاں اُس وقت جو ہوا برطانیہ کو قطعی طور پر اس پر معافی مانگنی چائیے، جو مارے گئے وہ واپس تو نہیں آسکتے، لیکن ہم اُن کے لواحقین ہیں، کم سےکم برطانیہ کو ہم سے ہمدردی کا اظہار کرنا چائیے اور معافی مانگنی چائیے۔‘
انڈین پنجاب کے شہر امرتسر کے جلیانوالہ باغ واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر برطانوی حکومت اُس واقعے پر معافی مانگتی ہے تو قصہ خوانی واقعے پر بھی معافی مانگے۔
رواں سال اپریل میں ہی برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے پارلیمنٹ سے خطاب کےدوران جلیانوالہ واقعے کو برطانوی ہند کی تاریخ کا بدنما داغ کہتے ہوئے معافی مانگی تھی۔
خواجہ محمد اکبر سیٹھی پشاور کے رہنے والے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ شاہی جوڑے کو قصہ خوانی بازار کا دورہ کرکے یہاں کے لوگوں سے ملنا چاہیے۔ ’اگر وہ پاکستان آرہے ہیں تو اُنھیں چاہیے کہ وہ قصہ خوانی بازار آئیں اور جائے وقوعہ پر جا کر معافی مانگیں۔

قصہ خوانی کا قتلِ عام‘ مورخین کی نظر میں


مورخین لکھتے ہیں کہ خدائی خدمت گار تحریک کے ہزاروں کارکن باچا خان کی گرفتاری کے خلاف قصہ خوانی بازار کے چوک یادگار پر جمع ہوئے۔ اُن کا یہ احتجاج پرامن تھا۔
اُس وقت انگریز حکومت کے پشاور کے ڈپٹی کمشنر میٹکاف تھے، جنھوں نے احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے اُن پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا۔
بعض مورخین اس واقعے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ پورا دن انگریز فوج نے خدائی خدمت گار تحریک کے پرامن مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور قصہ خوانی بازار میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے لیکن اگلی صفوں کے گرنے کے بعد مزید کارکن آگے آتے رہے۔
پشاور میں مقیم مصنف اور تجزیہ کار خادم حسین سمجھتے ہیں کہ تاریخ کی درستگی کے لیے بھی ضروری ہے کہ برطانوی جوڑا قصہ خوانی واقعے پر معافی مانگے۔ خادم حسین کے مطابق برطانوی جوڑے کو قصہ خوانی بازار جانا چاہیے اور وہاں یہ اعلان کرنا چاہیے کہ یہ واقعہ ایک جبر تھا جس پر وہ پشیمان ہیں۔

انگریز کیا کہتے ہیں؟

برطانوی تاریخ دان اور مصنف ویلیم ڈارلیمپل نے اپنی کتاب ’انارکی: دا ریلنٹلس رائز آف دی ایسٹ انڈیا کمپنی‘ میں انگریز دور حکمرانی میں برصغیر میں رونما ہونے والے ان واقعات کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
ان کے مطابق برطانوی حکومت کو ماضی میں کیے گئے اُن تمام واقعات پر معافی مانگنی چاہیے، جو اُن کے دور میں ہوئے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں جرمنی نے ہٹلر کے مظالم کے بعد معافی مانگ لی اور یہ تسلیم کیا کہ یہ غلطیاں ہوئی تھیں۔ اسی طرح برطانوی حکومت کو بھی ماضی کے ایسے واقعات پر معافی مانگنی چاہیے، جن میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔
پختونوں سے سب سے زیادہ ہمدردی کا اظہار کرنے اور پشاور کو اپنا گھر ماننے والے انگریز اولف کیرو اس وقت چیف کمشنر کے سیکرٹری تھے۔
کیرو بعد میں اس صوبے کے گورنر بنے، باچا خان کے دوست بنے، اور ’دی پٹھانز‘ کے نام سے ایک مشہور کتاب بھی لکھی۔
لیکن 1970 کی دہائی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کیرو نے بھی محض یہ کہا کہ ’آپریشن پر ٹھیک طرح سے عملدرآمد نہیں کیا گیا۔‘
اس انٹرویو میں کیرو کا کہنا تھا کہ جب وہ سیکریٹریٹ سے نکلے تو انھوں نے دیکھا کہ شہر بھر میں سڑکوں پر مظاہرین تھے اور تقریباً 15 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ لیکن حتمی سرکاری تخمینے کے مطابق 20 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
تمام مقامی ذرائع کے مطابق یہ تعداد کم سے کم 200 تھی۔ کیرو کے پاس یہ معلومات نہ ہونا تعجب کی بات اس لیے ہے کیونکہ کمشنر کے ’نروس بریک ڈاؤن‘ کے بعد انھوں نے خود گاڑیوں میں لاشیں بھروا کر دفنانے کے لیے بھجوائی تھیں۔
’دی پٹھان ان آرمڈ‘ کی مصنفہ موکولیکا بینرجی کا کہنا ہے کہ ’سامراجی انتظامیہ نے قتل ہوئے لوگوں کی تعداد کے حوالے سے انتہائی غلط بیانی کی تھی۔ لیکن یہ ایسی صورت حال کے لیے بالکل تیار ہی نہیں تھے کیونکہ پختونوں کا مجمع دیکھ کر انگریزوں نے یہ طے کر لیا کہ یہاں تشدد ضرور ہو گا۔‘

عدم تشدد کے موقف پر قائم

1990 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے باچا خان کے بیٹے اور پشتو کے نامور شاعر غنی خان نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ دو خدائی خدمت گاروں نے چھپ کر جیل میں ان کے والد سے ملاقات کی۔
باچا خان نے انتقام لینے سے منع کیا اور ان کو پورے انڈیا کے مسلمان قائدین سے مدد مانگنے کے لیے بھیج دیا۔ غنی خان بتاتے ہیں ’وہ ہر جگہ گئے، لیکن ان کی بات کسی نے نہیں سنی۔ صرف ایک گاندھی جی تھے جو اس وقت ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔‘

یہ واقعہ تصاویر کی صورت بھی نقش ہے

پشاور کی تاریـخ پر گہری نظر رکھنے والے ابراہیم ضیا کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے عینی شاہدین پر انگریز نے دباو ڈالا کہ وہ یہ گواہی دیں کہ واقعے میں سارا قصور مارے جانے مظاہرین کا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو اس واقعے سے متعلق تصاویر بھی دکھائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تاریخی واقعات کی ہزاروں تصاویر ہیں۔
انھوں نے تصویر میں وہ آرمرڈ کار بھی دکھائی جسے ایک شہری نے آگ لگا دی تھی۔ دوسری آرمڈ کار آگے بڑھی تو اس نے شہریوں کو کچل دیا۔ برطانوی فوج نے سوار فوج کو بلایا تو انھوں نے نہتے شہریوں پر گولیاں چلانے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد گورکھا اور برطانوی فوجیوں کو بلایا گیا تھا۔
ان کے مطابق اس واقعے میں کم سے کم 400 افراد مارے گئے تھے۔ تاہم برطانوی دور میں اس کی تعداد 15 سے 20 تک بتائی جاتی رہی ہے۔

ماضی کے بجائے مستقبل پر توجہ

تاریخ دان عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے معافی مانگنے سے ماضی کی ناانصافیوں کی تلافی نہیں ہو گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسانیت کے خلاف جرائم ناقابلِ برداشت ہیں اور یہ عہد کرنا ہو گا کہ ان کو کبھی دہرایا نہیں جائے گا۔‘
عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ سامراجی تاریخ میں اس طرح کے واقعات کو بھلا دینا معمول کی بات ہے۔ ’یہ سانحہ انڈین آزادی کی جدوجہد میں اہم اور پختون قوم پرستی کی تاریخ میں فیصلہ کُن تھا۔ لیکن قصہ خوانی یا جلیانوالہ باغ جیسے واقعات کو عالمی سطح پر ویسی توجہ نہیں دی جاتی جیسی ان کو ملنی چاہیے۔‘

Comments