ایلس ویلز کے سی پیک بیان پر چینی سفیر کا سخت ردِعمل: ’امریکہ اس وقت کہاں تھا جب پاکستان کو ضرورت تھی‘

پاکستان میں چینی سفیر یاؤ جِنگ نے جمعے کے روز ایک تقریب میں کہا ہے کہ سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے مفاد میں ہے اور دونوں ممالک میں میڈیا کو سی پیک کے حوالے سے منفی پروپگینڈے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

چینی سفیر کا اشارہ گذشتہ روز امریکہ کی جنوبی اور وسط ایشیائی امور کی نائب سیکریٹری ایلس ویلز کی تقریر کی طرف تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستانی شہریوں کو سی پیک کی شفافیت کے حوالے سے سوالات اٹھانے چاہیئیں۔

ایک روز قبل واشنگٹن ڈی سی میں تھینک ٹیک ولس سینٹر میں ایک تقریر کے دوران ایلس ویلز نے کہا تھا کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے تاہم یہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو شائع نہیں کرتا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہیئیں۔

ایلس ویلز نے کہا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اس وقت نقصان پہنچے گا جب چار سے چھ سال بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر یہ ادائیگیاں موخر بھی کر دی گئیں تب بھی یہ پاکستان کی معاشی ترقی پر منڈلاتی رہیں گی۔

تاہم ایلس ویلز کے بیان کے بعد پاکستان میں چینی سفیر نے کہا ہے کہ چین نے سیاسی مقاصد یا مخصوص حکومتوں سے بالاتر ہو کر ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور کبھی بھی ایسے وقت پر پاکستان سے ادائیگی کا تقاضا نہیں کریں گے جب ایسا کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہو۔ سفیر کا کہنا تھا کہ دوسری جانب یہ آئی ایم ایف ہے جس کی قرضوں کی ادائیگی کا سخت نظام ہوتا ہے۔

چینی سفیر نے سوال اٹھایا کہ ’جب 2013 میں پاکستان میں تونائی کا شدید بحران تھا اور چین ملک میں پاور پلانٹس لگا رہا تھا تو اس وقت امریکہ کہاں تھا۔ امریکی کمپنیوں نے اس وقت وہاں پر پاور پلانٹ کیوں نہیں لگائے؟‘

انھوں نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو امداد اپنی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر معطل کیوں کی ہے۔

’امریکہ آپ کو بہتر آپشنز دے گا‘
اپنی تقریر میں ایلس ویلز نے کہا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے تاہم پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے سے پاکستان کو طویل المدتی معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امریکہ کے پاس بہتر ماڈل موجود ہے جس کے تحت نجی امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے وہاں مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچائیں اور حکومتی امداد سے پاکستانی معیشت کو مستحکم کیا جائے۔
ایلس ویلز نے بتایا کہ پاکستان امریکہ کے لیے اقتصادی طور پر ایک اہم ملک ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ سال امریکی محکمہِ کامرس کے 15 تجارتی وفد پاکستان آئیں گے۔

ایلس ویلز نے سی پیک کے حوالے سے متعدد مثالیں بھی دیں تھیں جہاں ان کے خیال میں پاکستانی مفادات کو ترجیح نہیں دی گئی۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ سی پیک کے سب سے بڑے پروجیکٹ، کراچی سے پشاور تک ریل سروس کو بہتر بنانے کے ٹھیکے کی قیمت ابتدا میں 8.2 ارب ڈالر تھی، بعد میں پاکستانی وزیرِ ریلوے نے کہا کہ اسے 6.2 پر لایا گیا ہے تاہم حالیہ میڈیا رپورٹس میں یہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کو یہ کیوں نہیں پتا کہ اس کی قیمت کیوں بڑھائی گئی ہے۔

چینی سفیر نے اس بارے میں اپنے بیان میں کہا کہ یہ قیمت صرف ایک تخمینہ ہے اور اس کی حتمی قیمت پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے میں طے ہونا ہے۔

ایلس ویلز نے ایک اور الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک منصوبے پاکستانیوں کے لیے نوکریاں نہیں پیدا کر رہے جس کے جواب میں چینی سفیر کا کہنا ہے کہ چینی پروجیکٹس میں اب تک 75000 پاکستانیوں کو نوکریاں مل چکی ہیں۔

Comments