سوشل میڈیا اور ریاکاری

-:سوشل میڈیا اور ریاکاری:-
ریا کاری ہر ُاس فعل کا نام ہے جو کہ اس غرض سے کیا جائے کہ لوگوں کی نظروںمیںوہ بندہ سخی ، فیاض، عالم اوردوسروں کاہمدرد نظر آئے۔ لوگ محفلوں میں ُاس کے کردار کی تعریف کریںاورہرسوں اسکی سخاوت،دینداری، عظمت اوربلندئی کردارکے چرچے ہوں۔ریا کار بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کیلے نیک عمل نہیں کرتا، بلکہ عوام الناس سے داد وصول کرنے کیلے کرتاہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ نیک اعمال پسندیدہ ہیں، جس میں اخلاص ہواوراللہ کی رضاکے سواکوئی دیگرمقصدنہ ہو ۔ لیکن بعض لوگ نیک اعمال صرف دکھاوے کیلے کرتے ہیں بدیں وجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ُاس کو کوئی اجر و ثواب نہیں ملتا ، الٹا گہنگار ہوتاہے۔ اور ریا والا عمل اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن جاتاہے۔ اللہ ربالعزت قرآن مجید کے ُسورة البقرہ کی آیت نمبر 262 میں ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ:ا۔ سب کچھ جا نتا ہی ، جو لوگ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں، پھر خرچ کر نیکے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں انہی کے لئے ہے ثواب ُان کااپنے رب کے یہاں، اور نہ ڈر ہے ُان پر اور نہ غمگین ہوں گے۔ مراد اس سے یہ کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں جن لوگوں پر خرچ کرتا بعد میں ُان پر احسان نہیں کرتے اور نہ کسی کو بتانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ ُاس نیکی کو ہمیشہ کےلے بھول جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر کسی کے ساتھ نیکی یا بھلائی کروں تو پھر ُاس کا ذکر ہر گزمت کریں اور جو بندہ یاد دھانی کرتا ہے ُا س کو اللہ تعالٰی کے ہاں اجر و ثواب کی امید نہیں رکھنی چاہیے، اس طرح ُسورة الکھف آیت نمبر 110 میں ارشا د ربانی ہے۔ ترجمہ:۔ تو کہہ میں بھی ایک آدمی ہوں جیسے تم، حکم آتا ہے مجھ کو کہ معبود تمھارا ایک معبود ہے، سو پھر جس کو امید ہوملنے کی اپنے رب سے سو وہ کرے کچھ کام نیک اور شریک نہ کرے اپنے رب کی بندگی میں کسی کو۔
سورہ کہف کی آخری آیت کا شان نزول جو روایات حدیث میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شرک سے مراد شرک خفی یعنی ریاءہے۔ اما م حاکم نے مستدرک میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے یہ روایت نقل کی ہے، اور اس کو سحیح علٰی شرط الشیخین فرمایاہے، روایت یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایلک شخص اللہ کی راہ میں جہادکرتا تھا، اس کے ساتھ اس کی یہ خواہش بھی تھی کہ لوگوں میں اس کی بہادری اور غازیانہ عمل پہچاناجائے، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ، بس واضع ہوا کہ اگر جہاد میں بھی ریا کار ی ہو ، تو جہاد کا ثواب نہیں ملتا۔ اور ابن ابی حاتم اور ابن ابی الدنیانے کتا ب الاخلاص میں طاﺅس ؒ سے نقل کیا ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ میں بعض اوقات کسی نیک کام کے لے یا عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور میر قصد اس سے اللہ تعا لی ہی کی رضا ہوتی ، مگر اس کے ساتھ دل میں یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ لوگ میرے عمل کو دیکھیں، آپﷺ نے یہ سن کر سکوت فرمایا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابو نعیم اور تاریخ ابن عسکر میں بہ روایت ابن عباسؓ لکھا ہے کہ جندب بن زہہیرؓ صحابی جب نماز پڑہتے یاروزہ رکھتے یا صدقہ کرتے پھر دیلھتے کہ لوگ ان اعمال سے انکی تعریف وثناءکر رہی ہیں تو اس سے ان کوخوشی ہوتی، اور اپنے اس عمل کو اور زیادہ کر دیتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔لہذا یہ واضع ہوا کہ ریاکاری سے انسان کی اعمال نہ تباہ ہوتے ہیں بلکہ شرک خفی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ لیکن سیل فون کی بدولت ریا کاری میں ہر لمحہ تیزی آرہی ہے، اگر کوئی کسی تقریب میں جائے ، تو تصاویر اور ویڈیوں کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ قربانی کا جانور خرید کر گھر لانے سے پہلے سوشل میڈیا پر Share کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ غریب کی مددکرنے سے پہلے کیمرہ کسی کے ہاتھ میں دکے کر تصاویر اور ویڈیوں کو سوشل میڈیا کی ذینت بناتے ہیں۔ جب ُان تصاویر اور ویڈیوز پر کمنٹس آتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے، مگر یہ لوگ نہیں سوچتے کہ کیا یہ نیک اعمال لوگوںکو دکھانے کے لئے کرتے ہیں یا آخرت کی کامیابی کیلے۔ خود ہی اپنی بربادی کا سامان تیار کرتے ہیں۔
                                             تحریر: اسلم گل پشاور

Comments