اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں

  پاکستانی علم 

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں

دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیںہر ملک کا اپنا ایک جھنڈا ہے، کیونکہ جھنڈے ہی کی وجہ سے ملک اور قوم کی پہچان ہوتی ہے۔جس طرح یہ ملک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد دنیا کے نقشے پر ابرا ، اس طرح اس ملک کا پیارا جھنڈا بھی کئی دن کی سوچ و بچار کے بعد دنیا کے جھنڈوں کے صف میں شامل ہوا ہے۔ ہمارا عظیم پرچم امن کی نشانی ہے، ہمارا قومی پر چم دو رنگوں پر مشتمل ہے ایک سبز اور دوسر ا سفیداس میں تین حصے سبز اور ایک حصہ سفید رنگ ہے ، سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے ، سبز رنگ کے بلکل درمیان میں چاند اور ستارہ بنا ہوا ہے ،چاند کا مطلب ترقی اور پانچ کونوںوالے ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہرکرنے کے ساتھ ساتھ کلمہ ، نماز ،روزہ ، زکواة اور حج کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اس اعظم پرچم کا سرکاری نام پرچم ستارہ و ہلال ہے۔ پاکستان کادنیا کے نقشے میں شامل ہونے سے تین دن پہلے یعنی 1 1اگست 1947 ءکو اسے قومی پر چم کا درجہ حاصل ہوا۔ جب انگریزوں نے تقسیم ہند کا اعلان کیا تو سندھ کی صوبائی اسمبلی نے تقسیم کی شرائط کے مطا بق اس کے حق میں تجویز منظور کی۔ پاکستان کی طرف قائداعظم اور ہندوستان کی طرف سے پنڈت جواہرلال نہرو اس کمیٹی کے ممبران مقرر ہوئے ۔

اس کمیٹی کے چوبیس گنٹھے میں دو اجلاس ہوا کرتے تھے جو کہ صبح وائسرائے کے گھر اور سہ پہر اورنگزیب روڈ دہلی میں واقع قائد اعظم کی رہائشگاہ پر منعقد ہوتے تھے ۔ جس میں صبح کے نتیجے اور آئیندہ کے لیے لائحہ عمل پر غور کے ساتھ ساتھ دوسرے مسائل پر بھی سوچ و بچار ہوتا تھا۔ ایک میٹنگ کے دوران وائسرائے نے پاکستانی پرچم کے متعلق گفتگوں کی اور قائداعظم سے کہا کہ بھارت کے نمائندے تو اس بات پر رضامند ہیں کہ باقی آبادیوں (کالونیز ) کی طرح اپنے جھنڈے میںپانچواں حصہ برطانوی پرچم یعنی یونین جیک کیلے محصوص کردیںآپ کا کیا ارادا ہے ؟ تو قائد اعظم نے کہا کہ اپنے دوستوں سے مشورہ کر کے بتاوں گا۔ اس پر سردار عبدالرب نشتر نے عرض کی، کہ ہررائے نہیں ماننی جاسکتی، ہماری صورتحال باقی ماندہ برطانوی نو آبدیوں سے جدا گانہ ہے، وہ ممالک برطانوی لوگوں کے قبضے میں ہیں۔ برطانوی پرچم سے ان کا خاص تعلق ہے، ہم تو برطانوی قبضے سے آزادی حاصل کانا چاہتے ہیں۔ ہمارا ان سے نہ نسلی تعلق ہے اور نہ مذہبی۔ ہمار ا ملک ایک اسلامی ملک ہوگا۔ ایسا پرچم غلامی کی یادگا رہے گا۔ اور سب سے بڑھ کی یہ کہ اس میں صلیب موجود ہے، ہما ری قوم کو کیسے قابل قبل ہو سکتا ہے۔ 

لہذ ا ا تفاق رائے سے وائسرائے کی تجویزنا منظور ہوئی ۔ قائداعظم نے وائسرائے کو کہا کہ بھارت کی اپنی صوابدیدہے لیکن پاکستان کئی وجوہات کی بنا پر یونین جیک کو پرچم میں جگہ نہںدے سکتا۔ بالا آخر یہ طے پایا گیا کہ چونکہ پاکستان میں کئی اقلیتیں موجود ہیں۔ اس لیے اگر سب کی نمائندگی کیلے علٰحدہ علٰحدہ رنگ یا نشان کے پرچم ر کھے گئے توموزوں نہ ہوگا۔ چونکہ سفید رنگ جو تمام رنگوں کا مجموعہ ہے اور دوسرا پرچم میں سفید رنگ کا موجود ہونا ہمارے اسلامی ملک کی امن و صلح کی پالیسی کا بھی مظہر ہوگا، ایک حصہ سفید منتخب ہوا ۔ اس طرح سب اقلیتوں کو بھی نمائندگی مل گئی۔ 

میٹینگ کے دوران قائد اعظم نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پاکستان کے پانچوں صوبوں کی نمائندہ گی کیلے پر چم میں پانچ ستارے بھی رکھے جائیں ؟ جس پر سردارعبدالرب نشتر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ریاستوں کا الحاق بھی ہوگا۔ کچھ روز بحث ہوتی رہی اور پر چم کے کئی ڈئیزائن تیار کئے گئے۔ پھر قائداعظم کوایک نمونہ پسند آیا، جو کہ امیرالدین قدوائی نے قائد اعظم کی ہدایت پر تیار کیا تھا۔پاکستان کا پہلا پرچم ما سٹر الطاف حسین اور افضال حسین نے سیا تھا۔قومی پرچم کے مختلف سائز جدا جدا موقعوں کیلے مقررہیں، مثلا اگر کیسی شخص کو سرکاری اعزاز کے ساتھ د فنانے کا موقع ہو، گھروں پر لہرانے کا موقع ہو، گاڑیوں پر لگانے کی ضرورت ہو، یا میز پر رکھنے کی ضرورت ہو ، ہر سائز موقع اور ضرورت کی مناسبت سے مقرر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے قومی پر چم کی لہرانے کی تقاریب (23مار چ) یوم پاکستان ، (14اگست) یوم آزادی ، (25دسمبر) یوم قائداعظم کے مواقعوں پر منعقد کی جاتی ہے یا پھر اگر حکومت وقت ضرورت محصوص کریں،تو کسی خا ص موقع پر پر چم لہرانے کا اعلان کر سکتی ہے۔ 

 اس کے علاوہ قائداعظم کے یوم (11 دسمبر) ، یوم وفات علامہ اقبال (21اپریل) اور یوم وفات لیاقت علی خان (16اکتوبر)پر قومی پر چم سرنگوں رہتا ہے، یا کسی اور موقع پر جس کا اعلان حکومت وقت کرے۔سرنگوں کی حالت میں پرچم ڈنڈے کی بلندی سے قدرے نیچے باندھا جاتا ہے۔اس سلسلے میں بعض حضرات ایک فٹ اور بعض دو فٹ نیچے بتاتے ہیں۔ پاکستان کا قومی پرچم سب سے پہلے فرانس کی سر زمین پر11 اگست 1947کو لہرایا گیا تھا۔یعنی یہ واقع پاکستان کے قیام سے تین دن پہلے پیش آیاتھا۔معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق ہندوستان کے بوائے سکاﺅٹ جمبوری میں شرکت کیلے فرانس میں موجودتھا کہ بین الاقوامی اخبارات میں یوم پاکستان کی خبریںشائع ہونے لگیں، تو دستے میں موجود مسلمان سکاﺅٹس نے فیصلہ کیا ، چاہے جو بھی ہو 14اگست کو ہمار الگ ملک بن جائے گا، تو اس دن ہم کسی بھی صورت انڈیا کے جھنڈے کو سلامی نہں دیںگے، بلکہ اس دن ہم اپنے الگ ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے سبز ہلالی پر چم کے نیچے کھڑے ہوںگے۔

اخبارات میںشائع شدہ تفصیلات کے مطابق انہوں نے وہاں دستیاب ذرائع سے پاکستان کا پر چم تیار کیا اور یوں پہلی بار پاکستان کی باضابطہ نمائندگی کرتے ہوئے قومی پر چم برصغیر سے دور فرانس میںلہرایا گیاتھا۔ سرکاری دفاتر کے علاوہ قومی پر چم پرزڈنٹ ہا ﺅس، وزیر اعظم ہا ﺅس، چیر مین سینٹ ہا ﺅس،ڈپٹی چیرمین آف سینٹ ، سپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی سپیکرز، قومی اور صوبائی اسمبلیوںکے سپیکرز، قومی اور صوبائی اسمبلیوںکے ڈپٹی سپیکرز کے گھر و ںپر، صوبوں کے گورنرزہا ﺅس پر، وفاقی وزارءکے گھروں پر، اور وہ لوگ جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہو، صوبوں کے وزرائے اعلٰی اور صوبائی چیف سیکرٹریز ، چیف الیکشن کمشنر، صوبائی الیکشن کمشنرزاور دوسرے ممالک میں پاکستانی سفیروں کی گھروں پر قومی پر چم لگا سکتے ہیں۔ فاٹا کو خیبر پختوں خوا میں شامل ہونے سے پہلے رہائش گاہیں شامل ہیں۔ پہلے ڈویژن کے کمشنر اور ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو بھی اپنی رہائش گاہوں پر قومی پرچم لگاسکتے تھے اس برح قبائیلی علاقوں کے پولیٹیکل ایجنٹ بھی اپنے گھروں پر قومی پر چم لگا سکتے تھے۔اس کے علاوہ وہ ہوائی جہاز، بحری جہاز، اور موٹر کار پر بھی قومی پر چم لگایاجاسکتاہے جو بدوران سفر صدر پاکستان، وزیر اعظم، چیر مین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، صوبوں کے گورنرز، چیف جسٹس آف پاکستان، صوبوں کے چیف جسٹسز، جسٹسز، وزرائے اعلٰی استعمال کررہیں ہوں۔ 

جب اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو بازاروں میں قومی پرچم اور قومی پرچم کے بنے ہوئے بیجزفروخت کرنے کیلے رکھ دئے جاتے ہیں لوگ 14اگست کی خوشی منانے کیلے قومی پر چم اور قومی پرچم کے بنے ہوئے بیجز خریدنا شروع کر دےتے ہیں اور ان قومی پرچموں سے گھروں ، دکانوں کو سجانا شروع کر دےتے ہیں لیکن جب 14اگست کا دن گزر جاتا ہے تو ہمیں قومی پر چم اور اس کے بنے ہوئے بجیز ادھر ادھر پڑے ہوئے ملتے ہیں،لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ 14 ا گست گزر جانے کے بعد ان پرچموں کو حفاظت سے سنبال کر رکھے کیونکہ زندہ قومیں اپنی قومی پر چم کی بے حرمتی نہیں چاہتے، خوا وہ ایک چھو ٹی جھنڈی یا قومی جھنڈے کے بنے ہو¾ے بیجز کیوں نہ ہوں۔

تحریر :اسلم گل پشاور

Comments