خوبصورت لہجے کے شاعرڈاکٹرعمرقیازقائل

تحریر : محمدپرویز بونیری

خیبرپختونخواکی سرزمین میں اردوادب کے بڑے پائے کے ادیب اورشاعر گزرے ہیں۔احمدفراز، فارغ بخاری، قتیل شفائی ، شوکت واسطی ، نذیرتبسم ،خاطرغزنوی،غلام محمدقاصر، محسن احسان، رضاہمدانی اورمقبول عامر جیسے شعراءکاکلام پڑھنے سے یہ امر واضح ہوجاتاہے کہ اس سرزمین نے اردوشاعری کے میدان میں ایسے نابغہ ¿ روزگارپیداکئے ہیں، جن پر بجا طورپر فخرکیاجاسکتاہے۔ 

خیبرپختونخوا کے دورافتادہ خطہ بنوں کی علاقائی زبان اگرچہ پشتو ہے ، مگریہاںاردو زبان کی قدردانی کایہ عالم ہے کہ یہ جواں مرد شاعرمقبول عامرکی جنم بومی ہے، جنہوں نے اپنے خوبصورت لہجے کے بل بوتے پر عالمی شہرت حاصل کی تھی۔ دورجدید میں ڈاکٹر عمر قیازقائل جوکہ ایک طرف اردوادب کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اوراردوادب کے میدان میں نسلِ نو کی علمی پیاس بجھانے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی ہے تودوسری طرف اردو شاعری کے ساتھ ایسامضبوط رشتہ قائم کردیاہے کہ ہر چند اس میدان میں نوواردمعلوم نہیں ہوتے۔میں نے مقبول عامر کو پڑھاتھا ۔انکی زندگی اورفکر وفن نے مجھے انکاگرویدہ بنادیاتھااورجب بھی کہیں بنوں کاذکرآتاتھا، مقبول عامرکے اشعارمیرے حاشیہ خیا ل پرلہرانے لگتے ہیں۔ سال2020ءمیں جب میںنے اردوادب کے طلبہ کے لئے ” مشعلِ اردو“ مرتب کیا اورملک کے طول وعرض میں اسکی پذیرائی اورمانگ بڑھی تواس سرزمین یعنی بنوںمیں بہت زیادہ تعدادمیں میرے چاہنے والے پیداہوئے ، جن میں ڈاکٹرعمر قیازقائلبھی شامل ہیں۔ پہلی فرصت میں انہوں نے کتاب کی قیمت اداکرکے ” مشعلِ اردو“ منگوائی اورپڑھنے کے بعد اپنے شاگردوں کو تجویز کی، جس کے بعدبنوں کے ساتھ میراایساتعلق پیداہواکہ ہرہفتے کوئی نہ کوئی دوست وہاں سے کال کرکے مجھ سے مشعل اردوکے متعلق پوچھتاہے ۔

 سوشل میڈیا کی توسط سے مجھے قائل صاحب کی شاعری پڑھنے کاموقع ملا اوریوں انکے ساتھ برقی خط کتابت ہوتی رہی ۔ حالیہ دنوں میں انکامجموعہ ” محبت عام کرناچاہتاہوں “ منظرعام پرآیا توانکی شاعری کے اصل جوہر کھل کرسامنے آگئے۔ محترم نے اپنامجموعہ مجھے ارسال کیا۔ کتاب کے ٹائٹل کی طرح ہرشعر اورہرمصرع میں محبت عام کرنے کاپیغام چھپاہواہے۔اس قدرخوب صورت لہجہ، فصیح وبلیغ اردو اور فکر وفن کے اعتبارسے ایسے کامل اشعار کہناکہ ان پر اہل زبان کاگمان ہوتاہے۔کتاب پر بڑے بڑے اساتذہ ¿فن کے مقدمے اورتعریفی کلمات درج ہیں، جن کے ہوتے ہوئے ہمارے الفاظ نقارخانے میں طوطی کی صداکے مترادف ہوں گے، مگر موصوف کی شاعری پڑھنے کے بعد اپنے جذبات پرقابونہ رکھ سکے اورقلم کو اپنے جذبات کے اظہارکاذریعہ بنایا۔ہم ایک عرصہ سے اردوادب کے ساتھ وابستہ ہیں ، گوکہ طبیعت موزوں نہیں رکھتے اورخود کبھی شعر کہنے کی کوشش نہیں کی ہے ، اگرچہ یہ آرزو کبھی کبھی حصارذات میں مچلتی ہے ، مگر شاعری کے مقابلے میں نثر مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے زیادہ مناسب لگتی ہے ۔ اسلئے جب بھی مشق سخن کی خواہش پیداہوتی ہے ، قلم اٹھاتے ہیں اوروزن، بحر، قافیہ اورردیف کی قید سے آزادہوکر نثرتخلیق کرتے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کی کتاب ” محبت عام کرناچاہتاہوں“ کو جستہ جستہ پڑھا، کچھ اشعار دل کوایسے بھائے کہ پہلی فرصت میں ازبرہوگئے اورموقع محل کی مناسبت سے بطورہتھیار اپنے پاس سنبھال رکھے ہیں۔بقول قائل صاحب

میں نفرت کو خیالِ خام کرناچاہتاہوں

محبت کو جہاں میں عام کرناچاہتاہوں

کوئی مانے نہ مانے یہ تہیہ کرلیاہے

میں اپنے آپ کو نیلام کرناچاہتاہوں


ڈاکٹرعمرقیازقائل نے جدید شاعری میں اپناایک الگ مقام پیداکردیاہے کیونکہ اکثر شعراءعام طورپر محبت کے حصارمیں ایسے مقید ہوتے ہیں کہ وہ دنیا کی تمام مسرتیں اپنی ذات تک محدودرکھناچاہتے ہیں۔ انکے موضوعات محدودہوتے ہیںاوراکثر کسی انسان کی محبت میں تخیل کی دنیاﺅں میں سفرکرتے ہیں۔وہ اپنی شاعری میں محبوب کاسراپابیان کرتے ہیں، اسکی جدائی میں روتے ہیں ، اپنی محبت کااظہارمختلف طریقوں سے کرتے ہیں اوراپنے سوا ہربندے کوجوکہ اسکے محبوب کاقرب حاصل کرلیتاہے، زندیق سمجھنے لگتے ہیں۔ڈاکٹرصاحب کے مجموعے ” محبت عام کرناچاہتاہوں“ کے ٹائٹل سے انکی عالی ظرفی، وسیع المشربی اورمحبت کے پاکیزہ جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے جدید شاعری کو ایسے بے شماراشعار دئے ہیں جوخیال اوربیان کے اعتبارسے ہماری شاعری میں اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کتناعجیب شخص تھا کیاکام کرگیا

اپنی اداسیاں بھی میرے نام کرگیا

میں اس نظرکے سبب معتبرتھادنیامیں

میں اس نظرکے سبب بے مثال رہتاتھا


اپنے وطن اوردھرتی سے والہانہ محبت کااظہارڈاکٹرصاحب نے کچھ یوں کیاہے۔

اب جوپھیلا ہے یہ گلزار، نہیں تھا اتنا

یاتوگلشن سے مجھے پیارنہیں تھا اتنا

ایسی آلودگی پھیلی ہے مرے شہروں میں 

سانس لینا کبھی دشوار نہیں تھااتنا


Comments