سراب

 
سراب

 تحریر: اسلم گل

  دسمبر کا مہیناہے ، گذشتہ پانچ دنوں سے لگاتار بارش ہورہی ہے جس سے سردی کی شدت میں کا فی اضافہ ہوا ہے۔گاﺅں کے اکثر کچے مکانات کی چھتیںجگہ جگہ ٹپکنے لگی ہیں ۔ سردار خان ، جس کو غریبی کی وجہ سے سردارے کے نا م سے پکاراجاتاہے، بھی ا س گاﺅ ں کارہنے والا ہے۔ سردار کے کاندھوں پر بوڑھے والدین کے ساتھ ساتھ دو جوان خوبصورت بہنوں کی ذمہ داری بھی ہے جو کہ نہایت سلیقہ مند، خوش اخلاق اور دین داربھی ہیں۔ بڑی بہن کا نام یاسمین جبکہ چھوٹی کا نام نورین ہے مگرجہاں غربت اورافلاس کاگذرہوتاہے، وہاں انسان کی ساری رعنائیاں ماند پڑجاتی ہیںاورتمام خوبیاں خامیوں میں بدل جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کامعیاریہ ہے کہ دولت ہی انسان کی تمام خوبصورتی اورعظمت پیمانہ سمجھاجاتاہے۔یہی وجہ تھی کہ یاسمین اورنورین کے لئے تاحال کوئی اچھارشتہ نہیں آیاتھا۔

سردارکی شادی اپنی برداری کی انتہائی خوبرو خاتون سے ہوئی تھی، جس سے سردارکاایک بچہ پیداہواتھا۔سردارجی مع اپنے اہل عیاں اس انتظارمیں بیٹھے ہیں کہ کب بارش تھم جائے اور وہ مزدوری کے لئے شہرچلا جائے ، کیونکہ گھرمیں اپنی بیوی بچے اوردوبہنوں کے لئے مشکل سے دووقت کاراشن رہ گیاتھا،جس کو اس نے محلے کے دکاندارسے ادھارلایاتھا۔یوں بھی موسم سرماکی شروعات ہوتے ہی سردارکاکام کمزورپڑتاتھا۔ مسلسل بارشوں کی وجہ سے ہفتے میں ایک دودن دیہاڑی ملتاتھااورباقی سردارجی گھرمیں بے کاربیٹھارہتاتھا۔گھرکاخرچہ چلانے کے لئے سردارگاﺅں کے بڑے دکاندارسے ادھارسوداسلف لاتاتھا۔ اس سال مسلسل مہنگائی کی وجہ سے دکانداروں پر بھی بوجھ تھا اوروہ مزید ادھاردینے کی استطاعت نہیں رکھ سکتے تھے۔سردارجی دکان گیااوررونی سی صورت بناکر دکاندارکے سامنے اپنے گھرکاسارانقشہ رکھ دیا، مگراس نے صاف صاف انکارکردیاکہ وہ مزید اسے ایک دن کاراشن بھی نہیں دے سکتا۔سردار خالی ہاتھ گھرلوٹا تواسکی بیوی اورجوان بہنوں سے اسکی یہ حالت برداشت نہیں ہورہی تھی۔ بیوی نے جاکر اسے دلاسادیناچاہا۔

©” آپ زیادہ پریشان نہ ہوں۔اللہ تعالیٰ نے رزق کاوعدہ کیاہے ۔ میں آج معراج خان کے گھرجاکر اس سے کچھ رقم ادھارمانگ لوں گی ۔ تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں۔ یہ بارشیں تھم جائے، تب تک زیادہ سردی بھی نہیں رہے گی اورتم کام پہ جاﺅں گے۔ ان شاءاللہ ہم انکاقرض جلدی واپس کردیں گے۔“سردارکی بیوی نے اپنے شوہرسے کہنے لگی۔

والدین سے بھی سردارکی یہ کیفیت برداشت نہیں ہورہی تھی اوراسے مسلسل تسلی دیتے رہے جبکہ یاسمین اورنورین بھی دعائیں مانگتی رہیںاوراسے تسلی دیتی رہیں۔اس چھوٹے سے خاندان کو بھوک کی عادت توبرسوں سے تھی ، مگرسردی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی انہیں گرم کپڑوں کی حسرت دامن گیرہوجاتی۔کیونکہ سالہاسال کے استعمال سے انکے کپڑے انتہائی باریک ہوگئے تھے، جوانکے جسموں کو ڈھانپ توسکتے تھے مگرسردی کی شدت سے نہیں بچاسکتے تھے۔

سردارنے اپنے بچے پر ایک نظرڈالی تووہ سردی سے کپکپارہاتھا۔غیرمتوازن اورغیرصحت بخش کھانانہ ملنے کی وجہ سے اسکاجسم بھی انتہائی لاغرہوچکاتھا۔سردارنے ایک ٹھنڈی آہ بھری اورکہنے لگا۔” ہم کیوں اپنی اولاد پر ظلم کرتے ہیں۔ جومحرومیاں ہمارے حصے میں لکھی ہیں اورہم ان سے چھٹکاراحاصل نہیں کرسکتے توپھر ہمیں کیاحق ہے کہ ان محرومیوں کے بوجھ تلے ایک نئی نسل کو بھی پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔“ 

والد برزرگوارنے یہ باتیں سنیں توبہت غصہ ہوئے اوراپنے بیٹے کو اپنے گلے سے لگایا۔

” بیٹا! ایسی باتیں نہ کریں ۔اللہ تعالیٰ ناراض ہوتاہے۔ ہماری قسمت میں یہ غریبی ہی ٹھیک ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارااگلاجنم انتہائی شاندار کردے گا۔“

سردار :۔ ”بابا! گلنار دعا کروکہ بارش رک جائے اورمیں مزدوری کے لیے شہر جاسکوں“

بابا :۔ اللہ تعالیٰ کارساز ہے، ان شاءاللہ بارش بھی رکے گی اورتمہیں شہر میں اچھاخاص روزگاربھی ملے گا۔

ماں نے بھی اپنے بیٹے کودلاسادیااوراسکی پیشانی کوچھوم کراسکے لئے ڈھرساری دعائیں مانگیں۔

مغرب کی نمازکے بعد سردارنے آکر بیوی کے ساتھ آتش دان کے قریب بیٹھااوراپنے بچے کو گودمیں بٹھایاجبکہ والدین ابھی نوافل پڑھ رہے تھے جبکہ اسکے دائیں اوربائیںیاسمین اورنورین بیٹھی ہوئی آگ کی تپش سے اپنے ہاتھ گرم کررہی تھیں۔اسکی بیوی جو ابھی روٹیاں بنارہی تھی، اپنے شوہرسے کہنے لگی۔

” ہاں یادآیا، معراج خان کابیٹامرادولایت سے آیاہواہے۔ سناہے کہ گاﺅں کی غریبوں کی بہت مددکرتاہے۔ تم جاکر ان سے کچھ رقم ادھارمانگ لو ۔ کام شروع ہوتے ہی اسکاقرض اتاروگے۔“

  سردارکچھ دیر گہری سوچ میں ڈوباکیونکہ اسے کسی امیرکی دہلیز پہ جاکر کچھ مانگنا اپنی خودداری کے خلاف لگ رہاتھا، مگراپنے چھوٹے بچے ، بہنوں اوروالدین کی حالت کو دیکھتے ہوئے اس نے خودداری کو ایک طرف رکھ دیا اورمعراج خان کے ڈیرے پہ چلاگیا۔گاﺅں کے دیگر صاحب حیثیت لوگ وہاں پہلے ہی موجودتھے اورمراد سے گپ شپ لگارہے تھے۔سردارنے جاکر انتہائی مودبانہ اندازمیں مرادکے ساتھ سلام کیا اوراسکی حال احوال پوچھا اورایک طرف جاکر چارپائی پر خاموش بیٹھا۔باتوں باتوں میں مرادکے ایک دوست نے کہا۔

” اپنایارتواس دفعہ بہت ساری دولت ساتھ لایاہے۔آخراتنی ساری دولت کاکیاکروگے۔ ہمارے گاﺅں کے لوگوں کو مالی مدد کی ضرورت ہے، کیوں ناکچھ پیسہ گاﺅں کے غریب لوگوں پر خرچ کریں، گاﺅں میں نیک نامی بھی ہوگی اوریہی لوگ کل سیاسی دوڑدھوپ میں خوب کام آتے ہیں۔ “

مرادکو یہ بات بہت پسند آئی اوراس نے نوٹوں کاایک بنڈل نکال کر اپنے دوست کودیاکہ کل گاﺅں کے کی گلی کوچوں میں سرعام یہ پیساان لوگوں میں بانٹ دیں ، جواسکے ڈیرے پرروزانہ آتے رہتے ہیں اوراپناتعلق نبھاتے ہیں۔

مراد خاموش بیٹھاتھاکیونکہ اسے اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں مراد سے قرض رقم مانگنا اپنی خودداری کے خلاف لگ رہاتھا۔ جب سارے دوست اٹھ گئے توسردارخاموشی سے مراد کے پاس گیا اورکہاکہ مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ مراد بھی ولایت سے آیاہوا تھا اورکافی سمجھدارتھا۔ دوسری طرف سردارسے اسکی بچپن کی شناسائی بھی تھی۔ فوراً بھانپ لیاکہ سردارکیاکہنے والا ہے۔اس نے سردارکو مزید بات کرنے کی مہلت ہی نہیں دی اورکہا۔

” اس وقت مجھے بہت دیرہورہی ہے۔ گھرمیں بھی بہت سارے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ کسی فارغ وقت میں تم اپنی بات کروگے اورکھڑاہوکر سیدھا گھرچلاگیا۔“

سردار سمجھ گیا۔ وہاں سے انتہائی مایوس نکل کر گھرچلاگیا۔صبح ہوئی توگھروالوں کو کچھ کہے بغیربارش میں ہی مزدوری کے لئے شہرروانہ ہوا۔

 تحریر: اسلم گل

Comments