عوام کیوں اذیت میں مبتلاہیں؟


عوام کیوں اذیت میں مبتلاہیں؟

تحریر: اسلم گل

     احتجاج ، احتجاج، ہر دن ہر وقت کسی نہ کسی سیاسی پارٹی یا تنظیم کی طرف سے اپنے سپورٹروں کو احتجاج کی کال ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ جو اُس جماعت یاتنظیم کو سپورٹ کرتے ہیں، فورا سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ پھر کیا زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کے ساتھ ساتھ نکل کر ملک کی چھوٹی بڑی سڑکیں بند کردیتے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو احساس ہوتا ہے نہ انکے لیڈرکو کہ اُ ن کی وجہ سے جو راستے بند ہیں،اس سے عوام بہت بڑی اذیت میں مبتلاہیں۔بہت سارے مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑدیتے ہیں۔حاملہ خواتین گاڑیوں میں بچوں کوجنم دیتی ہیں ۔ مزدوراپنے کام پہ نہیں جاسکتے ۔ ملازمت پیشہ لوگ اپنی ڈیوٹی دینے سے رہ جاتے ہیں اوراشیائے خورونوش کی قلت ہوجاتی ہے ۔کو ئی بندہ اپنے کسی رشتے دار ، عزیز، دوست کے جنازے میں شرکت نہیں کرسکتا۔ ستم بالائے ستم تویہ ہے کہ بعض اوقات یہی احتجاج کرنے والے لوگ سر کاری املاک کے ساتھ ساتھ قوم کے ذاتی املاک کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔عوام کی گاڑیوں کے شیشے توڑتے ہیں ،راہ گیروںکو پتھر مارتے ہیںاورفیکٹریوں، کارخانوں ، مارکیٹوں اور دکانوں کو آگ لگاتے ہیں۔

    الحمدللہ اس ملک میں جمہوریت ہے اور احتجاج جمہوریت کا حُسن ہے کہ اپنے حق کیلے احتجاج کریں۔ مگراحتجاج کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ راستوں کو بند کریاجائے اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایاجائے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ احتجاج کرنے والے اور اُن کے قائدین تعلیم یافتہ، باشعور اور قانون سے با خبر لوگ ہوتے ہیںلیکن پھر بھی احتجاج کے وقت ان کاشعورختم ہوجاتاہے۔ راقم الحروف نے اپنی زندگی میں ان پڑھ اورجاہل لوگوں کو اس قسم کے احتجاج کرتے نہیں دیکھاہے۔ دنیا میں دوسرے ممالک کے لوگ بھی اپنے حق کے لیے احتجاج کرتے ہیں مگر سرکاری یا پلک پراپرٹی کو نقصان نہیں دیتے۔ بےشک اپنے حق کیلے احتجاج کرولیکن ملک اور قوم کے فائدے کیلئے۔

اس ملک کے اندرپرامن احتجاج کی روش ختم ہوتی جارہی ہے۔اپنے حقوق کے لئے احتجاج ہو یاملک کانظام بدلنے کے لئے ، اعتدال کادامن ہاتھ سے نہیں جاناچاہئے۔دنیاکی باشعورقوموں کی حالات پڑھنے سے یہ امرواضح ہوجاتاہے کہ وہ لوگ کسی طورپر اپنے ملک کو اورملکی وسائل کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ وہ انسان کی قدرکرتے ہیں۔ دوران احتجاج انسانوں کوتکلیف نہیں دیتے بلکہ حتی الوسع عوام کی تکالیف دورکردیتے ہیں۔حکومت وقت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ احتجاج کرنے والوں کاموقف سنے۔ اگرحق پر مبنی ہے توانکے مطالبات تسلیم کرے ، ورنہ کوئی متعدل راستہ نکالے کہ قوم کو تکلیف نہ ہو۔ میری ذاتی رائے ہے کہ پارٹی ہیڈکوبھی اعتدال سے کام لیناچاہئے اورایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئے ،جس سے عوام الناس کو تکلیف پہنچے۔ اپنے حقوق کے لئے لڑناسب کاحق ہے ، مگر حدِ اعتدال سے نہیں گزرناچاہئے۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ قوم کے اندرشعورپیداہوجائے کہ ایسے احتجاجی جلسے ملک کی سلامتی کے لئے نقصان کاباعث بنتے ہیں۔ ہماری معیشیت بری طرح متاثرہورہی ہے۔معیارزندگی خراب ہوجاتاہے اورعوام انتہائی اذیت سے گزرتے ہیں۔لہذا اپنے جلسے جلوسوں کو پرامن رکھناچاہئے اوراعتدال کی حد سے نہیں گزرناچاہیے۔

تحریر: اسلم گل

Comments