کیا یہ جشن ِ آزادی ہے؟


 کیا یہ جشن ِ آزادی ہے؟                       

تحریر: اسلم گل 

      آج سے قریباً6 7 سال پہلے اسی دن یعنی 14اگست کو ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اور اُسی دن سے پاکستانی عوام ہر سال یوم آزادی جوش و خروش سے مناتے آرہے ہیں۔گذشتہ چند سال سے یہ آزادی کایہ جشن انسانوں کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔اگست کا مہینا شروع ہوتے ہی چھوٹے بڑے باجوں کی فروخت شروع ہوجاتی ہے۔ بچے تو خریدتے ہی ہیں مگرنوجوان بھی اپنی عادت سے مجبور ہوکر باجے خریدتے ہیں اور جگہ جگہ شور پیدا کرنے کیلے بھر پور انداز سے بجاتے ہیں،جس سے لوگ ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔بچے تو نا سمجھ ہوتے ہیں اورانہیں یہ احساس نہیں ہوتاکہ یہ بے ہنگم قسم کی تیز اورکانوں کوناگوارگزرنے والی آوازیں کس قدر اذیت ناک ہیں لیکن ہمارے نوجوان بھی اس قبیح رسم میں کسی سے کم نہیں رہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت سماعت سے نوازاہے۔ ہر انسان کی سماعت کی ایک حد مقررہے، اس کے اندرانسان آوازوں کو سنتاہے اوریہ انسان کی ضرورت ہے۔ کچھ آوازیں انسان کو بھلی لگتی ہیں اورکچھ انسان کو ناگوار، مگرکچھ آوازیں انتہائی ناگوار ہوتی ہیں،جس سے انسان ذہنی اذیت میں مبتلاہوجاتاہے۔ایسی قبیح اوربے ہنگم آوازیں انسان کے لئے کسی آفت سے کم نہیں، مگرافسوس کی بات ہے کہ ہماری بے حس نسل ایسی آوازیں اپنے لئے اوردوسروں کے لئے تفریح کاذریعہ سمجھتے ہیں۔ایسی آوازیں انسان کے ساتھ ساتھ جانوروں کے لئے بھی ناقابل برداشت ہوتی ہیں اورانکے آرام میں خلل کاذریعہ ہوتی ہیں۔ آرام اور سکون ہر جاندار کیلئے ضروری ہے۔ آرام کرنے سے انسانوں میں مثبت رویئے پیدا ہوتے ہیں اور بھوک بڑھتی ہے اور انسانی صحت کیلئے خوراک اور آرام بہت ضروری ہیں۔ بعض نوجوان باجے بجانے کے ساتھ موٹر سائیکل سے سائلنسر نکال کر شور پیدا کرتے ہیں۔ شور پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں شور کی آلودگی سے ہر عمر کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کی صحت کے ساتھ ساتھ جانوروں کی صحت وآرام کا بھی خیال رکھاجاتاہے اوروہ ایسی بے ہودہ سرگرمیوں کو بہت براخیال کرتی ہیں۔ مگرہمارے ہاں ایسانہیں۔ یہاں ہم دوسروں کو تکلیف دینے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ ہم اپنی خواہشات کو پورا کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ہمارے عمل سے کوئی اور نقصان اُٹھاسکتاہے یا کسی کی زندگی موت میں بدل سکتی ہے یا کوئی لا علاج بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے ہیں، بس وہی کرتے ہیں جوہمارے دل میں آئے۔ معلوم نہیں کہ دنیا کی کونسی کتاب میں لکھا ہے کہ یو مِ آزادی کی رات موٹر سائیکل سے سائلنسر نکال کر اورباجے بجا کر آزادی کاجشن منایاجائے۔ایک طرف لوگوں کو شور کی وجہ سے اذیت دیتے ہیں تو دوسری طرف فضول خرچی کرتے ہیں۔میں نے خود دیکھا ہے بعض نوجوان 14اگست کی رات کو موٹر سائیکلوں سے سائلنسر نکالتے ہیں باجے بجا بجا کر شور پیدا کر کے دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں اور اُن کو منع کرنے دوسروں کے ساتھ لڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ کچھ منچلے تو14 اگست کی رات کو ون ویلنگ بڑے شوق سے کرتے ہیں جو کہ کھیل نہیں موت کارقص ہے   

بیشک یوم آزادی منانا ہر پاکستانی کا حق ہے مگر دوسروں کو تکلیف دینے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ جن لوگوں نے چند ٹکوں کو حاصل کرنے کیلئے یہ چھوٹے بڑے باجے بنائے ہیں، انکے لئے دعاہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کوہدایت نصیب کرے۔اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے بیہودہ سرگرمیوں میں ملوث عناصرکے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے۔بازاروں میں ایسے دکانداروں کی نشاندہی کریں،جوان چیزوں کاکاروبارکرتے ہیں اورایسے اوباش نوجوان، جوموٹرسائیکل اورباجوں کے ذریعے عوام کو اذیت میں مبتلاکردیتے ہیں، انکے خلاف سخت کارروائی کرکے قوم کو ان سے نجات دلائے۔

Comments