سوڈان میں خونریز انقلاب کے دوران فوج کے ہاتھوں 113 افراد کی ہلاکت


سوڈانی ملٹری کونسل کی جانب سے پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ خرطوم میں دھرنے کے دوران فوجی طاقت کے استعمال میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق جمہوریت نواز مظاہروں میں اب تک فوج کی نہتے مطاہرین پر فائرنگ سے 113 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری خبروں کے مطابق سوڈان میں سیاسی بحران شدت اختیار کرگیا، جس کے بعد امریکا اور افریقی ممالک کی جانب سےبحران کے خاتمے کیلئے کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے جاری خبروں کے مطابق سوڈان میں فوجی حکومت کے خلاف جاری تحریک اور انقلاب میں اب تک 500 سے زائد افراد ہلاک، 700 سے زائد زخمی، 650 گرفتار ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے، جب کہ 50 سے زائد عورتوں کو جنسی تشدد یا زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ہنگامے پھوٹ پڑنے کے بعد سے اب تک 1000 سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ خونریز انقلاب کیلئے جدوجہد کرنے اور اپنے اپنی جانیں قربان کرنے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں اور پیشہ ورانہ افراد کی ہے۔
سوشل میڈیا پر مظاہروں کے درمیان فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 26 سالہ محمد متار سے اظہار یکجہتی اور فوج کے خلاف بغاوت کے اظہار کیلئے بلو فار سوڈان کا ہیش ٹیگ بھی مقبول ہوگیا ہے۔ لندن سے انجیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والا محمد متار 3 جون کو ایک پُر امن احتجاج کے دوران سوڈانی فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہوا۔
سوڈان کی عوام کا ساتھ دینے، جمہوریت کی بحالی اور خونریز انقلاب کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سوشل میڈیا نیلے رنگ کے ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بن گئے ہیں۔ انسٹاگرام، ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر سماجی رابطے کی سائٹس اور ایپس پر لوگ اپنی پروفائل پکچر کی جگہ نیلا رنگ استعمال کر رہے ہیں۔ نیلے رنگ کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ رنگ 26 سالہ نوجوان کا پسندیدہ رنگ تھا، جو دو خواتین مظاہرین کو فوج کی فائرنگ سے بچانے کی کوشش میں جاں بحق ہوا۔
سوڈانی ملٹری کونسل کی جانب سے پہلی بار اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ خرطوم میں دھرنے کے دوران فوجی طاقت کے استعمال میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق جمہوریت نواز مظاہروں میں اب تک فوج کی نہتے مطاہرین پر فائرنگ سے 113 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری خبروں کے مطابق سوڈان میں سیاسی بحران شدت اختیار کرگیا، جس کے بعد امریکا اور افریقی ممالک کی جانب سے بحران کے خاتمے کیلئے کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔

سوشل میڈیا اور بلو ہیش ٹیگ
سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے جاری خبروں کے مطابق سوڈان میں فوجی حکومت کے خلاف جاری تحریک اور انقلاب میں اب تک 500 سے زائد افراد ہلاک، 700 سے زائد زخمی، 650 گرفتار ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی ہے، جب کہ 50 سے زائد عورتوں کو جنسی تشدد یا زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ہنگامے پھوٹ پڑنے کے بعد سے اب تک 1000 سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ خونریز انقلاب کیلئے جدوجہد کرنے اور اپنے اپنی جانیں قربان کرنے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں اور پیشہ ورانہ افراد کی ہے۔


سوشل میڈیا پر مظاہروں کے درمیان فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 26 سالہ محمد متار سے اظہار یکجہتی اور فوج کے خلاف بغاوت کے اظہار کیلئے بلو فار سوڈان کا ہیش ٹیگ بھی مقبول ہوگیا ہے۔ لندن سے انجیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والا محمد متار 3 جون کو ایک پُر امن احتجاج کے دوران سوڈانی فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہوا۔

سوڈان کی عوام کا ساتھ دینے، جمہوریت کی بحالی اور خونریز انقلاب کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سوشل میڈیا نیلے رنگ کے ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بن گئے ہیں۔ انسٹاگرام، ٹوئٹر، فیس بک اور دیگر سماجی رابطے کی سائٹس اور ایپس پر لوگ اپنی پروفائل پکچر کی جگہ نیلا رنگ استعمال کر رہے ہیں۔ نیلے رنگ کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ رنگ 26 سالہ نوجوان کا پسندیدہ رنگ تھا، جو دو خواتین مظاہرین کو فوج کی فائرنگ سے بچانے کی کوشش میں جاں بحق ہوا۔

سوڈان پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے عمر البشیر کو فوج نے عوامی دباو کے باعث اس سال اپریل میں ہٹایا اور پھر دو سال کی مدت طلب کرنے کے بعد انتخابات کا وعدہ کیا اور اقتدار پر قابض ہوگئی۔ سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں فوجی ہیڈکواٹرز کے باہر جاری ایک ہفتے طویل دھرنے کا خونی اختتام تو ہوگیا، تاہم فوج نے اس سے کوئی سبق نہ حاصل کیا۔ سوڈانی نیم فوجی اور فوجی دستوں کی جانب سے مظاہرین اور دھرنے میں شریک افراد کو فائرنگ کے ذریعے منتشر کیا گیا، جب کہ فوج کے حملے میں 100 سے زائد افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں
ملٹری ترجمان کے مطابق ملک بھر میں فائرنگ سے 61 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جب کہ اسپتال ذرائع کے مطابق 120 افراد کی لاشیں اسپتال لائی گئیں۔ ترجمان کے مطابق دھرنے کے شرکاء کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، تاہم اس میں کئی غلطیاں ہوئیں۔ فوج کی جانب سے کمانڈر کو دھرنا ختم کرنے کیلئے پلان ترتیب دینے کا حکم دیا تھا، انہوں نے پلان تیار کیا اور اس حکم کی تعمیل کی، مگر اس میں غلطی ہوگئی۔

کابابش کا کہنا تھا کہ اصل پلان کولمبیا نامی علاقے کو منشیات فروشوں سے خالی کرانا تھا، مگر اس کے بعد جو ہوا، اس پر افسوس ہے۔ ہلاکتوں سے متعلق تحقیقات جاری ہیں، جس سے ہفتہ کے روز آگاہ کیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ عمر البیشر کو حکومت سے بے دخل کرنے کے بعد سے اب تک دو بار تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔



اس سے قبل سوڈانی صدر عمر البشیر کے خلاف ماضی میں اگرچہ وقتا فوقتا مظاہرے ہوتے رہے ہیں، تاہم گزشتہ برس دسمبر سے مسلسل ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے، جس کے بعد فوج نے سیاسی منظر نامے میں انٹری ماری اور 30 سال سے اقتدار پر قابض عمر البشیر کو ہٹا کر گرفتار کرلیا۔ عمر البشیر نے 1989 سے سوڈان کا اقتدار سنبھالا ہوا تھا۔



حزب اختلاف سے منسلک ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تین جون کو جب سے حکومت نے حکومت نواز مظاہرین پر کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے اس وقت سے اب تک سوڈان کی زوال پذیر خونی جھڑپ میں کم از کم 113 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیم فوجی دستے سڑکوں پر گھوم رہے ہیں اور شہریوں کو بلا امتیاز مار پیٹ کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

سعودیہ، روس سمیت مختلف ممالک کی دلچسپی
خطے میں دلچسپی رکھنے والے ایک تھنک ٹینک کا خیال ہے کہ جو عناصر مشرق وسطیٰ کے تنازعات کو شکل دے رہے ہیں وہی سوڈان میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ خاص طور پر ایک جانب سعودی عرب اور اس کے خلیجی حلیف کے علاقائی جھگڑے ہیں تو دوسری جانب ترکی اور قطر کے درمیان مسائل ہیں۔ خرطوم میں ہونے والے بد ترین بحران پر سوشل میڈیا متحرک ہوا تو ریاض سے لے کر قاہرہ اور انقرہ سے لے کر ماسکو تک دنیا کے دوسرے دارالحکومتوں کی بھی دلچسپی اس مسئلے میں بڑھنے لگی۔ سعودی شہزادے اور روسی صدر سمیت کن ممالک کے رہنماوں کو سوڈان کے تنازع میں گہری دلچسپی نظر آنے لگی ہے۔


سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات اور سوڈان کے پڑوسی ملک مصر کے ساتھ ساتھ خرطوم میں بھی فوجی حکمرانوں کو بہت حد تک تعاون فراہم کیا ہے۔ ان تینوں ممالک نے اس علاقے میں مقبول عام تحاریک خصوصاً اسلامی تنظیم اخوان المسلمین پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ اسے اپنی حاکمانہ حکومتوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔



ریاض اور ابوظہبی نے سوڈانی فوج کو انتہائی ضروری مالی امداد فراہم کی ہے۔ انہوں نے تین ارب امریکی ڈالر کا قرض دیا ہے تاکہ سوڈانی پاؤنڈ کو سہارا ملے اور بنیادی ضروریات کی چیزیں درآمد کی جا سکیں۔ کریک ڈاؤن سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں سوڈان کے اعلیٰ فوجی جرنیلوں نے ریاض، ابوظہبی اور مصر کا دورہ کیا تاکہ وہ اپنے اقدامات کے لیے سفارتی تعاون حاصل کر سکیں۔


اپریل میں ایک عرصے سے برسراقتدار حمکران عمر البشیر کے ہٹائے جانے کے بعد سے وہاں ان ممالک کے اثرورسوخ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اپنے 30 سالہ دور اقتدار میں سوڈانی حکمران البشیر دو مخالف ترکی اور قطر دونوں دھڑوں سے قریب رہنے میں کامیاب رہے۔ مثال کے طور پر وہ اسلام پسندوں سے دوستی نبھاتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی جنگ میں فوجی مدد فراہم کرتے رہے۔



مارچ سال 2018 میں قطر، ترکی اور سوڈان کے درمیان سوکین بندرگاہ کے فروغ کے لیے چار ارب امریکی ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ بحر احمر پر موجود یہ بندرگاہ ایک زمانے میں سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں تھی اور بہت ممکن ہے کہ اب وہاں ترکی بحریہ کی چھوٹی سے نفری تعینات رہے۔
ایک اندازے کے مطابق فوج کے اقتدار میں آنے کے بع  عوام کا ادارے پر سے اعتماد ہٹ گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج کی جانب سے کسی بھی معاہدے کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اس میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ضمانت کون دے گا۔


Comments