جاریہ خسارے سے نمٹنے کیلئے نئے بجٹ میں5بنیادی نکات طے کیے ہیں،مشیر خزانہ

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ معیشت کو درپیش بیرونی خطرات کا سدباب' بچت کے سخت اقدامات ' معاشرے کے نادار طبقے کی امداد' صنعتوں کیلئے سہولتوں کی فراہمی اور محاصل میں اضافہ آئندہ سال کے بجٹ کے پانچ بنیادی نکات ہیں۔
وہ آج اسلام آباد میں اطلاعات و نشریات کے بارے میں وزیراعظم کی خصوصی معاون ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ' محصولات کے وزیر مملکت حماد اظہر اور ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔مشیر نے کہا کہ پاکستان کا کل قرضہ تقریباً اکتیس ہزار ارب روپے ہے جبکہ غیر ملکی قرضوں کی مالیت سو ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات اور درآمدات میں بڑھتے ہوئے وقفے کی وجہ سے پاکستانی روپے پر بہت زیادہ دبائو ہے انہوں نے کہا کہ اس اضافے کے خطرے پر قابو پانے کیلئے نئے بجٹ میں کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ حسابات جاریہ کا خسارہ درآمدات میں کمی کرکے بیس ارب ڈالر سے ساڑھے تیرہ ارب ڈالر تک لایا گیا ہے اور یہ پالیسی اگلے بجٹ میںبھی اختیار کی جائے گی انہوں نے کہا کہ اگلے بجٹ میں اس خسارے کو ساڑھے تیرہ ارب ڈالر سے کم کرکے سات ارب ڈالر تک لانے کیلئے اقدامات تجویز کیے جاچکے ہیں۔مشیر نے کہا کہ سعودی عرب سے موخر ادائیگی پر تین ارب ڈالر کے تیل کی فراہمی کے علاوہ دوست ممالک کی جانب سے نو ارب بیس کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی بینک نے ڈیڑھ ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہے۔حفیظ شیخ نے کہاکہ حکومت پر دو کھرب نوسو ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے جو سابقہ حکومتوں نے لیا تھا۔انہوں نے کہا کہ وفاقی ٹیکسوں کا پچاس فیصد آئینی ذمہ داری کے تحت صوبوں کو دیا گیا ہے۔حفیظ شیخ نے کہا کہ وزیراعظم کے بچت اقدامات کے تحت نئے بجٹ میں سول حکومت کیلئے گزشتہ سال کے مقابلے میں پچاس ارب روپے کم مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بچت کا سلسلہ اوپر سے شروع کیا گیا ہے جس کے تحت کابینہ کے ارکان کی تنخواہوں میں دس فیصد کمی کی گئی ہے جبکہ گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔انہوںنے کہا کہ گریڈ سترہ سے بیس کے ملازمین کی تنخواہوں میں صرف پانچ فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ گریڈ اکیس اور اس سے اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہائوس کے اخراجات میں انتہائی کمی گئی ہے۔مشیر نے کہا کہ مسلح افواج نے اگلے مالی سال کیلئے رضاکارانہ طور پر اپنا بجٹ منجمد کر دیا۔انہوں نے کہا کہ سوشل تحفظ کے دائرے کے تحت بجٹ میں پسماندہ افراد کی مدد کیلئے رقم سو ارب روپے سے بڑھا کر191 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت مستحق خواتین کو نقدادائیگی یقینی بنائی جائے گی اور غریب افرادکو اپنی طبی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہیلتھ کارڈ جاری کیے جائیں گے۔حفیظ شیخ نے کہا کہ تین سو یونٹ سے کم استعمال کرنے والے بجلی صارفین کے مفادات کے تحفظ کیلئے 216 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور وہ کل صارفین کا 75 فیصد ہیں۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں نئے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی ترقی کیلئے 152 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے تحت ترقیاتی منصوبوں کیلئے 925 ارب مختص کئے گئے ہیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام میں بلوچستان ، جنوبی پنجاب اور دیگر کم ترقی یافتہ علاقوں کو خصوصی ترجیح دی گئی ہے۔عبد الحفیظ شیخ نے کہا کہ صنعتیں رعایتی نرخوں پر بجلی اور گیس حاصل کریں گی اور صنعتی شعبے کے لئے خام مال کی درآمد پر کوئی ٹیرف نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 1650 سے زائد اشیاء پر ہر قسم کے ٹیکس ختم کئے گئے ہیں تاکہ صنعتیں ترقی کرسکیں اور ملک میں تجارت کی آسانی کیلئے سہولیات فراہم کی جائیں۔مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت آئندہ مالی سال کیلئے 5500 ارب روپے کی محصولات کا ہدف مقرر کیا ہے کیونکہ ٹیکس نیٹ بڑھائے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔انہوں نے اثاثے ظاہر کرنے کی سکیم کو بدھ تک توسیع دینے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ توسیع شدید رش کی وجہ سے کی گئی ہے کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد آج سکیم کی مدت ختم ہونے سے پہلے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ بدھ کو بنکنگ اوقات ختم ہونے سے پہلے اپنے بے نامی اثاثوں کو دستاویزی بنا کر سکیم سے فائدہ اٹھائیں۔انہوں نے کہا کہ بے نامی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو بدھ کے بعد بے نامی اثاثوں کا پیچھا کرے گا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے واضح کیا کہ قومی اسمبلی نے جمہوری عمل کے ذریعے بجٹ منظور کیاہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں دو سو بیس ارب روپے کے ضمنی مطالبات زر کی منظوری دی گئی ہے جبکہ سابق مطالبات زر چھ سو ارب روپے تھے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ کے سلسلے میں تاجر برادری ، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر فریقوں کو شریک کیا گیا جس کے تحت مالیاتی بل میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔

Comments