جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے منی لانڈرنگ روک تھام کیلئے پاکستان کے اقدامات کو سراہا

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مروجہ سفارتی روایات کے اندر رہتے ہوئے تمام دیرینہ تنازعات کے تصفیے کیلئے پاکستان کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے منگل کے روز برسلز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے ابھی تک مذاکرات کیلئے آمادگی کا اظہار نہیں کیا اور اس کے انتہا پسندانہ موقف کے باعث اس سلسلے میں کافی وقت درکار ہوگا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت سفارتی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔
وزیر خارجہ نے کہاکہ ان کا دورہ اور یورپی یونین کی سیاسی امور کی کمیٹی اور اعلیٰ ادارے کے ساتھ نئے تذویراتی منصوبے پر اتفاق اس حقیقت کا منہ بولتاثبوت ہے کہ ہماری بات چیت میں پیشرفت ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے متعدد اقدامات کئے ہیں اور تمام ارکان نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان مخلصانہ کوششیں کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے یورپی ملکوں کے ساتھ پاکستان کی جی ایس پی پلس حیثیت کی اہمیت کے سلسلے میں بات چیت کی۔
بلیک لسٹ قرار دینے کے مسئلے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جرمنی ، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی یورپی ملکوں نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے جواقدامات کئے ہیں وہ مثبت اور جامع ہیں اور وہ پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے حامی نہیں ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے یورپی یونین کے اجلاس میں واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہورہی ہے اور آزادی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں جس پر عالمی برادری کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
وزیر نے کہا کہ افغان امن عمل کے بارے میں پاکستان کا کردار سب کے سامنے کھلا ثبوت ہے اور افغانستان کے مصالحتی عمل کے بارے میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بھی پاکستان کے مصالحتی کردار کو تسلیم کیا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملکی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج عشروں پر محیط بدعنوانیوں کا نتیجہ ہیں جو ورثے میں ملی ہیں۔
اس سے پہلے برسلز میں یورپی یونین کی سیاسی اور سلامتی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان امن، تحمل اور پرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت سے امن کے لئے رابطے کی پیشکش، دہشت گردی اور کشمیر سمیت تمام امور پر بات چیت کیلئے آمادگی اور امن و سلامتی کیلئے پاک افغان لائحہ عمل سے وابستگی ہماری خارجہ پالیسی کا منشور ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت سمیت اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کو باہمی احترام، خودمختاری اور باہمی فائدے کے لئے بہتر بنانے کیلئے پرعزم ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں تذویراتی استحکام کو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے روایتی عدم تناسب اور بعض ملکوں کی طرف سے بھارت کو جدید فوجی ساز و سامان اور حساس ٹیکنالوجی کی فراہمی میں امتیازی لائحہ عمل کی جستجو سے خطرے کا سامناہے۔
ان عدم استحکام پیدا کرنے والے حالات کے تحت پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا میں تذویراتی ضبط کے نظام کی جستجو کی خواہش رکھتے ہوئے کم سے کم دفاعی صلاحیت رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام کی راہ میں واحد بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کرتا رہا ہے۔
تاہم بھارت حقیقی اور مقامی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دے کر اسے وحشیانہ طاقت کے استعمال سے دبانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی امن و سلامتی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس عظیم نصب العین میں عالمی برادری کا اہم شراکت دار ہے۔
شاہ محمود قریشی نے دہشت گردی کے بارے میں کہا کہ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کامیابی سے جیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام کا پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان چار عشروں سے لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کر رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کا حل چاہتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے اپنے محدود کردار اور اثر و رسوخ کے باوجود اپنے نمائندوں کے ذریعے امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ دشمنوں سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے جو امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ صورتحال علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے لئے باعث تشویش ہے۔

Comments