غم یا خوشی


 دنیا میں جتنے بھی لوگ آباد ہیں ہر ایک اپنے مذہب، ملک، علاقے اور خاندانی رسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں مگر بہترین طرز زندگی اسلامی طور طریقوں میں ہے۔ اسلام ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حضرت محمدؐ کی سنت پر عمل کرنے کادرس دیتاہے۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر اسلامی طور طریقے اپنائے جائے تو ہم اپنی زندگی کو پر سکون بنا سکتے ہیں۔ چند دن پہلے ہمارے نزدیک رشتہ داروں میں ایک تین سالہ بچہ فوت ہوا، جو کہ کافی عرصہ سے بیمار تھا۔ میں تجہیز وتکفین کے مراحل سے لیکر تین دن تک فاتحہ خوانی میں شریک رہا۔ قل کے صبح سے ایسا محسوس ہورہا تھا جسے کہ خوشی کا کوئی تہوار شروع ہورہا ہو، مجھ سے پہلے بھی کئی عزیز و اقارب اور رشتہ دار تشریف فرماتھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ا یک صاحب آتے ہوئے اخبارات کا ایک بنڈل بھی ساتھ لایا تھا، فاتحہ کم اور ملکی اور غیرملکی حالات پر تبصرہ زیادہ ہوتا تھا، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی طرح ایک دوسرے پر الفاظ کے حملے ہورہے تھے۔ ایک صاحب غمزدہ خاندان کے دکھ سے لا پروا ہو سگریٹ پر سگریٹ سلگا رہا تھا اور اپنے بیٹے اور بہو رانی کی جھوٹی تعریف میں مگن تھا۔ ایک ٹولہ کاروباری بحث میں مصروف نظر آیا،ایسالگ رہاتھا کہ یہاں رسم قل نہیں بلکہ کاروباری لین دین ہورہا ہے۔ میں نے حیرت کے عالم میں ادھر ادھر ٓنکھیں گھمائیں تو کچھ فاصلے پر ایک سرکاری ملازم اور ایک عام مزدورکو دیکھ لیا، سوچا کہ یہ لوگ کس بحث میں مصروف ہیں ، معلوم کرنے کیلے ان کے نزدیک کرسی پر بیٹھ گیا ، سرکاری ملازم اپنی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا کہ جب وہ دفتر نہیں جاتا تو سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے کیونکہ اسکے علاوہ سب کے سب نکمے اور نالائق ہیںاور صرف اس نے پورے محکمے کو سنبھالا ہوا ہے۔ آخر کار کھانے کا وقت ہوا، یہ کھانا یعنی قل کا خیرات غریبوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لئے ہوتا ہے ، جو کہ تین دن تک ملسل صبح سے رات گئے تک فاتحہ خوانی میں شریک ہوتے ہیں ، لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی مہمانوں کے علاوہ آس پاس کے پڑوس کے لوگ بھی کھانے پرایسے ٹوٹ پڑے جیسے مال غنیمت انکے حصے میں آئی ہو ۔ ایک عزیز نے مجھ سے کہا کہ مہمانوں کی خدمت کیلے جاﺅ، بس بادل ناخواستہ اپنی جگہ سے اٹھا اور مہمانوں کی خاطر مدارت کے لئے جا پہنچا۔ ایک عجیب منظر تھا، لوگ کھانے کے اوپر ایسے ٹوٹ چکے تھے جیسا کہ کوئی مقابلہ ہورہا ہو۔ ایک مہمان کو کال آئی، اس نےاس ڈر سے فور ًا فون کو بند کر دیا کہ کہیں اس کے حصے کا کھانا کوئی اور نہ کھائے۔ دوسرے دستر خوان پر نگاہ ڈالی تو ایک بزرگ اپنے بچوں سمیت بیٹھا ہوا تھا اور بار بار چاول اور چکن کی ایسی فرمائش کر رہا تھا ، جسے وہ فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھا ہوا ہے۔ آخر کار مہمانوں کا سلسلہ تھم گیا مگر لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوا، ایک خدا کا بندہ باورچی خانے میں منتظر تھا کہ بچے ہوئے کھانے پر ہاتھ صاف کرے۔ دوسر ے مہمان نے بھی بہتی کنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے غوطے لگانا شروع کئے۔ ادھر ادھر دیکھا، اسے گھی کا ایک خالی ڈبہ ملا، اس پرشاہین کی طرح جپٹا، ڈبے میں اس نے چکن کی بوٹیاں ڈال کر اس کو چاول میں دفنانے کے بعد میٹھے چاول کیلے بان کی ٹھوکری پہلے ہی قبضے میں کی تھی۔ تمام چیزوں پر ہاتھ صاف کرکے تیز تیز قدموں سے گھر کی راہ لی۔ موصوف کا یہ خیال تھا کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ مجھے انتہائی افسوس اور دکھ ہوا۔ یہ تو باہر کا علم تھا، خداجانے گھر کے اندر خواتین کا کیا عالم ہوگا۔ ایک طرف متوفی کے ورثاء دکھ کے عالم میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور دوسری طرف عزیزواقارب  اور یار دوست ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کے چکر میں دیوانہ وار ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر کچھ  تو احساس کا مادہ ہونا چاہئے کہ جس کے دل کا ٹکڑا ہمیشہ کیلے ان سے جدا ہواہے، جنہوں نے اپنی زندگی کی جمع پونجی اپنے جگر پارے کے علاج معالجے میں لگادی ہے اور اب پیسے پیسے کے محتاج ہیں۔ کیا انکی اتنی طاقت ہے۔ ادھر لوگوں کے ارمانوں کا جنازہ نکل رہاہے۔ قرضوں پہ قرضے چڑھے جارہے ہیں ، کسی کی آنکھوں سے جاری آنسووں کا سیلاب روکنے کا نام نہیں لے رہاتھا، کسی کے حلق سے نوالہ تو کیا، پانی کا ایک گھونٹ بھی نیچے نہیں جارہا تھا، والدین کے بڑھاپے کا سہارہ نہ رہا، ایک ماں اپنے بیٹے کے سر پر شادی کا سہرا دیکھنے سے محروم ہوگئی ، مگر فاتحہ خوانی کے لئے آنے والے لوگوں کی بے حسی کایہ عالم۔۔انتہائی افسوس ناک ہے۔

تحریر : اسلم گل پشاور

Comments