ملاوٹ اور دھوکہ دہی،آخر کب تک ؟

 

ملاوٹ اور دھوکہ دہی،آخر کب تک ؟       

جب اللہ رب العزت نے اس دنیا کو انسان کیلئے پیدا کیا، تو اس کی ہر چیزصا ف،خالص اوراپنی قدرتی شکل میں ہرقسم کی ملاوٹ سے پاک تھی۔ تمام اشیاءاپنے مقرہ وقت پر پیدا اور فنا ہوتی تھیں۔ ایک ہی زمین سے ہر قسم کے پھلداردرخت اگتے ہیںمگر وہ پھل اپنے ہی مخصوص موسم کے حساب سے دیتے ہیں۔جب وہی مخصوص موسم ختم ہوجاتاہے، تووہ پھل بھی خودبخودختم ہوجاتاہے ۔ اسی طرح ہر فصل ایک خاص موسم میں کاشت کی جاتی ہے اور اپنے مقررہ وقت پر کاٹی جاتی ہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں تجسس ، مشاہدہ اور تحقیق کامادہ رکھاہواہے،اس لئے جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا، اپنی ضرورت کے مطابق علم اور تجربے کی بنیاد پر نئی نئی ایجادات کرتارہاتا کہ اپنے لئے اوربنی نوع انسان کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔مگر انسان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود غرض ہوتا چلاگیا اور اسی خود غرضی کی وجہ سے قانونِ فطرت میں تبدیلیاں شروع کردیں۔ اسی لالچ میں انسان نے نہ اس دنیا کے لوگوں کے بارے میں سوچا اور نہ اپنی آخرت کے بارے میںفکرمندہوا۔ بس ہر چیز میں ملاوٹ اور دھوکہ شروع کردی،تا کہ وقت کے مطابق زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرسکے۔دولت کے اس لالچ میں انسان نے کسی کی کوئی فکر نہیں کی۔ کوئی انسان بیماری میں مبتلاہو، کسی کی موت واقع ہو، کسی کاگھربربادہورہاہو، کسی کاسہاگ اجڑرہاہو، کوئی بچہ یتم ہورہاہو، کسی کابچہ بھوک سے مررہاہو یا کوئی غیرمعیاری ادویات کی وجہ سے اپنی صحت سے ہاتھ دھورہاہو، مگر ایکسویں صدی کے انسان کابھوک ختم نہیں ہورہا اوردھوکے پہ دھوکہ کرتاچلاجارہاہے۔حالانکہ ہر بندہ جانتا ہے کی یہ دنیا ایک عارضی ٹھکانا ہے جس کے بارے میں اللہ تعا ٰ لیٰ قرآن مجید کے پارہ نمبر03 سور ة ، آل عمران، آیت نمبر185 میں ارشاد فرماتا ہے کہ ( تم میں ) ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھناہے باوجود اس حقیقت کے کہ وہ اس فانی دنیا سے کسی بھی وقت کوچ کرسکتا ہے مگر ملاوٹ اور دھوکہ دھی سے باز نہیں آتا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے جس نے خیانت کی ہمارے ساتھ پس وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

مندرجہ بالا حدیث سے باخبر ہونے کے باوجود ملاوٹ اور دھوکہ دہی کو گناہ تصور ہی نہیں کیاجاتا۔ چند ٹکوں کی خاطر دوسروں کی زندگیوں سے کھیلاجاتاہے۔ دودھ اور دہی کو گاڑھا کرنے کیلئے ایسے خطرناک کیمیکلز کا استعمال کیاجاتاہے جو کہ کینسر جیسے موذی بیماری کا موجب بنتے ہیں۔ ادرک کے وزن کو بڑھانے کیلئے زہریلے قسم کے کیمیکل میں کئی روز تک ڈبویا جاتا ہے ۔مویشیوں سے زیادہ دودھ لینے کیلئے ایک خاص قسم کا انجکشن لگایا جاتاہے،جس سے دودھ کاپیداوارتوبڑھ جاتاہے مگروہ خالص نہیں رہتا بلکہ مختلف قسم کی بیماریو ں کا باعث بن جاتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کو نقصان دہ کیمیکل سے دھویا جاتاہے جس سے گاہک کیلئے چمک اور کشش توپیدا ہوجاتی ہے لیکن پھر وہ پھل اور سبزیاں بیماریوں کا باعث بن جاتے ہیں۔  جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد گوشت کا وزن بڑھانے کیلئے مختلف طریقوں سے اس میں پانی بھر دیاجاتا ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ اکثرمسلمان حرام جانوروں اورمردہ مرغیوں کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔ انتڑیوں اور ہڈیوں کو کئی مراحل سے گزار کر اُن سے خوردنی گھی اور تیل تیارکیا جاتاہے۔ مرچ مسالوںمیں لکڑی کا برادہ اوردیگرمضرصحت چیزیں شامل کرنا تو اب عام سی بات بن گئی ہے۔ترقی کے اس دورصاف ہواکابھی فقدان ہے کیونکہ گاڑیوں اورکارخانوں کا زہریلا دھواں ہوا میں شامل ہوگیا ہے، جس سے سانس ، سینے اور دیگر امراض پیدا ہوتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پرہم روزسنتے اوردیکھتے ہیں کہ زہریلے شراب پینے سے کئی لوگ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں ان لوگوں نے تو کوئی چیز بھی خالص نہیں چھوڑی۔یہ ملاوٹی اور دھوکے باز لوگ تو بچوں کو بھی معاف نہیں کرتے ، اُن کو ایسی ٹافیاں اور چاکلیٹ کھلائے جاتے ہیںجو کہ اُن کی صحت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔کھانے پینے کی دوسر ی ا شیاءلیں لے، مثلا چائے کی پتی اورقہوہ وغیرہ بھی ملاﺅٹ سے پاک نہیں رہا۔ اسکے علاوہ سب سے اہم اورضروری چیز ادویات ہیں، جوکہ بڑی مشکل سے اصل حالت میں ملتی ہیں، باقی ہرجگہ دونمبراورتین نمبرادویات کی بھرمارہے۔ میں نے بذات خود ایک دن چوہے مار زہریلی دو ادکاندار سے طلب کی تو معلوم ہوا کہ اس میں بھی نقلی دواتیارکی گئی ہے ۔میری حیرت کی انتہانہیں رہی کہ زہربنانے میں بھی ہماری قوم ملاوٹ اوردھوکہ دہی سے بازنہیں رہی۔ اگر مذکورہ آیت اور حدیث پر ہم تھوڑی دیر کیلئے غورکریں، تو ان شاءاللہ یہ ملاوٹی اور دھوکے باز لوگ اپنے کام سے باز آجائیںگے نیز بحیثیت مسلمان ہمارا ایما ن اور یقین ہے کہ قیامت کے دن ذرے ذرے کا حساب دینا ہو گا، تو اُ س دن ہم اللہ رب العزت کو کیا جواب دیں گے اورشرم سے ہماراسرجھکاہواہوگا۔اس دن ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بھی محروم ہوں گے۔ توکیوں ناہم اپنے کردار کو خالص بناکر ملاوٹ اوردھوکہ دہی سے بازرہیں۔

تحریر: اسلم گل 

Comments