ٹرانس جینڈر ایکٹ کی شرعی حیثیت


 ٹرانس جینڈر ایکٹ کی شرعی حیثیت

 تحریر: اسلم گل

حسرت موہانی نے کیاخوب کہاتھاکہ 

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی 

  اک طرفہ تماشاہے حسرت کی طبیعت بھی

ایک حسرت کی طبیعت تھی کہ قید وبند کی صعوبتیں اورچکی کی مشقت برداشت کرتے چلے جارہے ہیں اورساتھ ساتھ مشق سخن بھی جاری ہے ۔ دوسری ہماری طبیعت ہے کہ دفترکے کام میں ذرا الجھ گئے یا گھر کاکوئی چھوٹاموٹامسئلہ کھڑاہوجائے ، تومشق سخن کوترک کردیتے ہیں۔ ایسی ہی کیفیت ہماری اوپر طاری تھی ۔دماغ میں تخیل کے دریچوں کو قفل لگے ہوئے تھے اورکچھ لکھنے کو دل نہیں چاہتاتھا۔زندگی کامقصد صرف معاش اوراسکے لئے تگ ودوٹہرے توزندگی بے معنی اوربے کیف سی ہوجاتی ہے۔زندگی کی اس بے کیفی نے نفسیاتی الجھنوں کاشکارکردیا تھا ،ہر چیزاورہربات سے وحشت سی ہوگئی تھی اورطرح طرح کی جسمانی کمزوریوں نے ڈیرے ڈال دئے تھے۔ہماری سوچ کچھ اورتھی اورپروردگارکامنشاکچھ اورتھا ۔ ہمارے محکمے کے ڈپٹی ڈائیریکٹر محترم گوہرخان نے میراتبادلہ دوسرے سیکشن میں کردیا، جہاں ایک نیاماحول ملا۔دوست بھی ایسے ہمدردملے، جنہوں نے پورا پورا سہارادیا۔ تھوڑی سی ذہنی آسودگی ملی توپھر قلم اٹھایا،سوچاکہ کیالکھوں۔ زمانہ  ¿حال پہ نظرڈالی توایوان بالا سے لیکر سوشل میڈیا تک اورعوام الناس کے اجتماعات سے لیکر مسجدتک ہرجگہ ٹرانسجینڈربل کی گونج سنائی دی۔ اس لئے اسے موضوع سخن بنایا۔

اللہ رب العزت نے اپنی تمام مخلوقات میں سے انسان کو سب سے افضل و اشرف پیدا کیا ہے اور جس طرح اس کائنات میں اپنی تمام مخلوقات کے جوڑے بنائے ہیں ، اسی طرح انسانوں میں بھی مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے تاکہ انسان نسل در نسل اس دنیا پر اپنی خلافت قائم رکھ سکے ۔یو ں یہ پورا نظام کائنات چل رہا ہے، جس میں اللہ نے اپنی حکمت کے مطابق جس جنس کو جیسا ہونا چاہیے تھا، ویسا بنایا۔ مرد اور عورت دونوں کو الگ الگ اعضائے مخصوصہ عطا فرمائے اور دونوں کو نظام زندگی چلانے کیلئے جدا جدا ذمہ داریاں سونپ دی ہیںتا کہ زندگی کا پہیا اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق رواں دواں ہو۔ اب اگر کوئی انسان اس قانون فطرت میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لانے کی کوشش کرے گا تو یہ نظام زندگی درہم برہم ہونے کے ساتھ ساتھ وہ انسان گہنگار اور جہنم کا حقدار ہوگا۔ 

 Transgender کا قانون کیا ہے ؟ کیااس قانون کے ذریعے کوئی بھی شخص اپنی جنسی شناخت تبدیل کر سکتاہے ، یعنی کوئی بھی مرد اگریہ کہے کہ میر ا جنسی شناخت مرد سے عورت لکھ دی جائے ، توبغیر کسی میڈیکل ثبوت کے صرف اس کے کہنے پر ادارہ جنس تبدیل کرنے کا پابند ہوگا، جس کے بعد وہ شخص عورت تصور کیاجائے گااور اس پر تمام قوانین عورتوں والے لا گو ںہوںگے، حتی کہ وہ خواتین کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکے گا۔ وہ کسی مرد سے نکاح کر سکے گا اوراس کا وراثت میں وہی حق تسلیم کیا جائے گاجو قانونی طور پر کسی عورت کا ہوتا ہے۔ تو اس طرح قانون کی وجہ سے ہم جنس پرستی کو جواز مل جائے گا، تو کیاکسی بھی اسلامی حکومت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس قسم کی قانون سازی کرے۔

لفظ Transgender دو الفاظ کا مجموعہ ہے Trans کے معنی منتقل یا تبدیل کرنا، جبکہ Jender کے معنی جنس کے ہیں یہ تعریف اقوام متحدہ کی دستاویز سے لی گئی ہے۔ مرد یا عورت جو اپنی پیدائشی جنسی شناخت سے انحراف کرکے اپنی جنسی شناخت (Gender Identity)بدل لیتے ہیں، مثلا مرد سے عورت یا خنثی، یا عورت سے مرد یا خنثی یا بے جنس ہونا چاہتے ہیں یا کوئی اور جدید شناخت اختیا کرتے ہیں۔ان میں سے بعض طبی طریقہ کار کو اختیارکرتے ہوئے ہارمون تھیراپی یا سرجری وغیر ہ بھی کروالیتے ہیں۔ انہیں ٹرانس سیکشوئل بھی کہا جاتا ہے۔ اور بعض صرف پیدائشی جنس سے مختلف جنسی اظہار کرتے ہیں یعنی وضع قطع ، حلیہ، لباس اور اطوار بدل لیتے ہیں انہیں کراس ڈریسر بھی کہا جاتاہے۔ ٹرانسجینڈر لفظ کثیرالمعنی ہونے کی وجہ سے اس میں بہت سی شرعی خرابیا ںضرور آئیں گی، مثلا جھوٹ اور دھوکہ دہی کا راستہ کھل جائے گا۔ شرعی احکام کے نفا ظ میں مشکل ہوگی۔ اعضاءکو کاٹتے ہوئے خلقت تبدیل کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔ ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔ مرد عورت کا ایک دوسرے سے مشابہت اختیارکرکے قانونی طور پر جائز ہو جائے گا۔ بے پردگی و بے حیائی کو فروغ ملے گا۔ ٹرانسجینڈر قانون کے نتیجے میں کو ئی بھی شخص اپنے لیے مخنث ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے،جبکہ حقیقت میں وہ مر و عورت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے اس دعوے کو محض اس کے گمان پر یقین رکھتے ہوئے بغیر کسی ثبوت اور شرعی طریقہ کار کو اختیار کیے بغیر مان لیا جائے گا ´، تو اس میں صریح جھوٹ اور دھوکے کا راستہ کھل جائے گا، جبکہ جوٹ بولنا اور دھوکا دینا دونوں ہی نا جائز و حرام اور جہنم میں لے ´ جا نے والے کام ہیں۔قرآن مجید کے سورہ آل عمران ، آیت نمبر 61 میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔  جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ حدیث نبوی ہے۔ جھوٹ سے بچو، کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جانے کا سبب ہیں، کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے اور سوچتا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ کی بارگاہ میں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح میراث اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حق ہے، جو جس کے لیے جتنا مقرر کیا گیا ہے اسے اتنا ہی ملے گا ، جبکہ قرآن و حدیث میں اس کی شدید ممانعت بیان فرمائی گئی ہے۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 188) ارشاد ربانی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاﺅ۔ اس قانون سے جنسی اعضا ءکو تبدیل کروانے کی راہ ملے گی، اسکو سہارا بنا کر اعضاءمیں قطعہ برید کرنے کا قانونی جوازمل جائے گا اور لوگ اپنے اعضا ءکو کاٹتے ہوئے اور مثلہ کرنے کے جر م کرنے کے مرتکب ہوں گے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں دخل اندازی کریں گے جو کہ سراسر غلط اور ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنے کے بارے میں صحیح مسلم شریف میں ہے :

” گُودنے والیوں ، گُدوانے والیوں ، چہرے کے بال نوچنے والیوں ، نُچوانے والیوں اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے“۔

اس قانون کی وجہ سے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا، کیونکہ مرد اپنے آپ کو عورت ظاہر کر کے دوسرے مردسے اور عورت اپنے آپ کو مرد ظاہر کردوسرے عورت کے ساتھ ہم جنس پرستی کا مرتکب ہوگا ، جو کہ ایک شنیع اور قبیح فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ الانبیاءآیت نمبر 74 میں فرماتا ہے۔ اور اسے اس بستی سے نجات بخشی جو گندے کام کرتی تھی بیشک وہ برے لوگ نافرمان تھے۔ قانون مذکورہ کی وجہ سے ایک مرد اپنے آپ کو عورت ظاہر کرکے عورتوں کے درمیان جاکر سرعام بے حیائی و بے پردگی کر سکتا ہے۔ 

اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا یہ قانون پاس کرنا جائز ہے یاناجائز ؟

 تحریر: اسلم گل

Comments