ایک ادبی نشست

 


ایک ادبی نشست

 تحریر:  اسلم گل

ازل سے عشق پرستی لکھی تھی قسمت میں 

مرامزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا

مجھے ادب سے شغف اُس وقت سے ہوا جب میرے بڑے بھائی شماس گل جو کہ روزانہ کی بنیاد پر اخبار پڑھتاہے، اُس نے ایک دن  مجھ سے کہا کہ اخبار میں خبروں کے ساتھ اداریہ اور کالم بھی پڑھا کرو۔ اُس وقت میں سکول میں پڑھتا تھا، تب سے کالم اور افسانے پڑھنے کے علاوہ مختلف اُردو اور پشتو شعراء کے کتب بھی پڑھتا ہوں،کبھی کبھی ناول پڑھنے لگتا،مگرطوالت کے باعث مکمل نہ کرپاتا۔ 

جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا، شادی ہوئی اورمعاش کی تلاش میں نکلے۔یہا ں میں جارج برناڈشاہ کامشہورقول ذکرکرناچاہتاہوں،جس سے مختیارمسعود نے اپنی کتاب کاآغازکیاہے۔ ”وہ مقام جہاں خواہش ِ قلبی اورفرض منصبی کی حدیں مل جائیں، اسے خوش بختی کہتے ہیں“۔

مگرمیری قسمت میں ایسانہ تھا۔مجھے عدلیہ میں ملازمت ملی، جہاں دور دور تک ادب کاکوئی سراغ نہ تھا۔ یوں مجھے میرے مزاج کے خلاف ایساماحول ملا، جہاں پورا پورادن عدالتی فائلوں میں ڈوبے رہتے۔اس دوران ایم ایس سی ماس کمیونیکشن کی کلاسز میں دوران تعارف مجھے ایک ایسے دوست سے پالاپڑا، جومیری طرح عدلیہ میں ملازم تھا۔ محمدپرویز بونیری کے نام سے مختلف اخبارات میں کالم لکھتاتھا۔میری خوشی کی انتہانہیں رہی کہ شاید برسوں مجھے جس دوست کی تلاش تھی، اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کردی۔کچھ دنوں کے بعد موصوف پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ماہرمضمون اردومنتخب ہوئے اوراسکے بعد لیکچرار کے عہدے پر تعیناتی ہوئی۔ ہماری دوستی کی بنیادایک ہی فکر اور سوچ پر مبنی ہے اس لیے  روابط بڑھے، وہ میرے ہاں آتاہے، میں انکے ہاں جاتاہوں۔ انہوں نے میرے اندرتخلیق ادب کے مادے کاسراغ لگایا۔ اور اب میں مختلف اخبارات میں نوائے قلم کے نام سے کالم تحریر کرتاہوں۔

ہر بندہ اپنے ہم خیال لوگوں سے تعلقات بڑھانے کی جستجوکرتاہے۔ چونکہ   جناب لقمان منان اورزاہدخان آفریدی جو کہ میرے دفتر کے ساتھی ہیں اور دفتری اُمور پر عبور رکھنے علاوہ ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں کے ساتھ محوگفتگو تھاباتوں باتوں میں انہوں نے ڈاکٹر سید زبیر شاہ کا ذکر کیا اور اتنی تعریف کی کہ اُن سے ملنے کو بے تاب ہوا۔ خیر ایک دن لقمان منان صاحب نے مجھے ڈاکٹر سید زبیر شاہ صاحب سے اُن کے گھر میں میری ملاقات کروائی۔ ادبی شخصیات میں پیارہوتاہے، مٹھاس ہوتی ہے اورایساطلسمی اثرہوتاہے،جس سے ہمارے جیسے ادب کے شیدائی بچ نہیں سکتے۔ڈاکٹرصاحب پہلی ملاقات میں ایسے گھل مل گئے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔انکی میٹھی میٹھی باتوں کااثرتھاکہ میں انکے محفل سے جانانہیں چاہتاتھا۔ڈاکٹرصاحب پیشے کے لحاظ سے پروفیسرہیں، گوکہ بہت بڑے عہدے پرہیں، مگرہمارے جیسے لوگوں سے ایسے ملتے ہیں کہ بیچ میں سارے فاصلے ختم کردیتے ہیں۔ہم نے انکی محفل میں بہت کچھ سیکھا۔ہمارے اندرتخلیق ادب کا شوق اور بھی بڑھ گیا۔ انکے محفل سے گئے، مگر ایک دیرینہ خواہش کی تکمیل ہوئی اوران سے عہد کیاکہ پشاورکی ادبی محفل میں ضرورشریک ہوں گے۔ 

 چند دن بعد پروفیسر صاحب نے مجھے ایک ادبی نشست میں مدعو کیا جو کہ ایک نئے لکھاری محترم مسرور انورکے لکھے ہوئے افسانے   ”خالی جگہ کی حفاظت“ کے عنوان سے تنقیدی نشست تھا۔ خوش قسمتی سے وہا ں پر ملک کے جانے پہچانے کالم نگار، نقاد اور شاعر جناب مشتاق شباب کے علاوہ بین الاقوامی شہرت یافتہ اور صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار، ڈرامہ نگاراور مدیر ادب سرائے محترم ناصر علی سید صاحب سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ موصوف انتہائی پیارے اور مشفق انسان ہیں اور ادب میں اُ ن کا اپنا ایک مقام ہے۔ آپ شائد1960سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محفل پر نظر ڈالی تو گلزار جلال صاحب کو دیکھا، جو کہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اور بھی بڑے بڑے ادیب موجود تھے۔

محفل کی آغازتلاوت کلام پاک سے ہوا۔ مسرور انور صاحب نے”افسانہ خالی جگہ کی حفاظت“ کو بہ آواز بلند پڑھا اور حاضرین نے سُنا۔

ادیبوں اورنقادوں نے مذکورہ افسانہ پرتبصرہ کرتے ہوئے اُس کے فنی و فکری پہلوؤں پر اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد ناصر علی سید نے اسی موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اور آخر میں مشتاق شباب نے افسانہ کی اہمیت و ضرورت اوراس کے فن پر مختصر مگر جامع صدارتی خطبہ دیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ سکول،کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اس قسم کے پروگراموں کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے اس سے آنے والے نوجوانوں میں لکھنے پڑھنے اور اپنے صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کا پورا  پورا موقع ملے گا۔ نوجوانوں کی علمی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ اُنکے اندرمثبت سرگرمیوں کاجذبہ پیداہوگا اوروہ تخلیقی کاموں کی طرف راغب ہوں گے۔اس طرح کی محافل کا انعقادکرنے سے تجربہ کار لوگوں سے ملنے اور اُنکے تجربہ سے نوجوان نسل کو بیش بہا فائدہ ملے گا۔ ویسے بھی آجکل کے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے منفی استعمال نے اپنے شکنجے میں جھکڑاہواہے، جس سے ان کی صلاحتیں ضائع ہورہی ہیں اور اُن کی ذہنوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اپنے آباواجداد کے رسم ورواج بھول رہے ہیں۔ اس قسم کی ادبی نشستوں کی وجہ سے اُن میں کتب بینی اورلکھنے پڑھنے کاشوق پیداہوگا۔ وہ ذہنی اورجسمانی طورپر صحت مندرہیں گے اورملک وقوم کے لئے مفید شہری بنیں گے۔

Comments

Post a Comment