کچرے کا ڈھیر


 اسلم گل
 تحریر: کچرے کا ڈھیر

سوچتا ہوں کس کو سمجھاؤں، ہر ایک سمجھتاہے، ہر کو ئی جانتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہو، آن پڑھ اور پڑھا لکھا دونوں میرے خیال سے جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ اور یہ نہیں سوجتے ہیں کہ اُس کے اس فعل سے اُس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو کیا تکلیف ملے گی؟ اور ملک کی کتنی بدنامی ہوگی؟جب بھی گھر سے باہر کی طرف نکلتاہوں تو کیا دکھتا ہوں کہ لوگ گھروں کی صفائی کر کے کوڑاکرکٹ گھر سے باہر محلے میں پھینک دیتے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس محلے، علاقے اور ملک سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جسم، لباس، گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ محلے، علاقے اور ملک کی صفائی لازم اور ملزوم ہے۔ مگر ہم لوگ کہ جسم، لباس، گھر کی صفائی کو اصل صفائی تصور کرتے ہیں۔اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی کر کے گند گریل گھر سے باہر جہاں جی چاہے پھینک دیتے ہیں  جس سے تعفن بدبو پھیلتا ہے اور وائیرس اور جراثیم  پیدا ہوتے ہیں 

ارشاد نبوی کا مفہوم ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ جسم کے ساتھ لباس، جگہ، ماحول اور روح کو پاک رکھنے کا نام صفائی ہے یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ صفائی نہ کرنے سے مختلف قسم کے وائیرس اور جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو کہ کئی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں دوسرے مسائل کی طرح کچرے کو تلف کرنا یا اس کو ری سائیکل کرنے کا ہمارے ہاں کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔ دوسری طرف ہم بھی صفائی صرف اپنے جسم، لباس اور گھر کو ساف رکھنے کو صفئی کہتے ہیں، حلانکہ گھر سے گند گریل کو نکال کر محلے میں پھنکنے کی بجائے اس کو مقررشدہ جگہ میں پھینکنا چاہئے۔ جگہ جگہ پھکنے سیسے تعفن اور بدبو پیدا ہوتا ہے۔ اور گھر سے باہر تو کیا پھر گھر کے اندر بھٹنا بھی مشکل ہوجاتاہے۔ اور نہ محلے سے آتے جاتے ہیں۔ ہم اگر اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ہم نے جو کچرا گھر سے نکال کر باہر پھینکا ہوتا ہے اور وہ گند پھر نالیوں میں گرتا ہے۔ جس سے نالیوں میں پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے اور بدبو  اور تعفن کا باعث بنتا ہے۔ گھروں کے کچرے میں عام طور پر سبزیوں اور فروٹ کے چھلکے ہوتے ہیں جس میں بہت جلد کیڑے مکوڑے پیدا ہوکر بیماریو اور بدبو کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ استعمال شدہ پلاسٹک کے بیگز ہوتے ہیں جو تیز ہوا کے آنے سے اُپر اُٹھ کر جگہ جگہ پیھل جاتے ہیں۔ 

     پارکوں میں کولڈ ڈرنکس، پانی اور جوس کے خالی بوتلیں اور ڈبے ادھر اُدھر لاپرواہی سے پھنکتے ہیں، جس سے پارک کم او ر کچرے کا ڈھیر  زیادہ  نظر آتا ہے  اور پھر یہی چیزیں سوریج سسٹم کو بند کردیتاہے۔ یہ گندہ پانی مکھیوں اور مچھروں کی افزائیش کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ جس سے مختلف بیماریاں یدا ہوتی ہیں۔

      گندگی کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق پانچ کروڑ ٹن سے زیادہ کچرا پیدا ہوتا ہے۔ اور بجائے کمی کے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ گھریلوں کوڑاکرکٹ کے علاوہ صنعتی کچرا بھی ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے یعنی کرخانوں میں استعمال شدہ اشیاء اور دھاتوں کی باقیات بھی شامل ہیں اور یہ باقیات بھی پھر نالیوں کی نظر کی جاتی ہیں جو کہ انسان کی تباہی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ 

کسی جگہ یا علاقے میں ڈرم اور ڈسٹ بین موجود بھی ہوں تو لوگ چند وہاں جانے کی بجائے جہا ں جی چاہے گند گریل پھینک کر اپنی ذمداری پوری کردیتے ہیں۔ 

مچروں، مکھیوں اور جوؤں کی پیدائیش درحقیقت صفائی نہ کرنے سے ہوتی ہے۔اگر ہم اپنے جسم، لباس، گھر کی صفائی تو کریں لیکن محلے، علاقے کی صفائی کا خیال نہ رکھیں تو ایسی صفائی کا ذرہ برابر بھی فائیدہ نہیں ہے۔ جس کے جی میں جہاں چاہے گھر اور فیکٹری سے کوڑاکرکٹ وہاں پھینک دیتے ہیں۔ نہ کسی کا ڈر، نہ کسی کا خوف اور نہ احساس ذمداری۔

Comments